شیشہ و تیشہ

وحید واجد (رائچور)
گوشت کو چھوڑدو…!
نام تک بھی نہ لو بُرے دن ہیں
کچھ تو حکمت کرو بُرے دن ہیں
اچھے دن آئیں گے تو کھالینا
گوشت کو چھوڑدو بُرے دن ہیں
………………………
تحجمل اظہرؔ
قافیہ پیمائی …!
شوقِ جنوں نے قافیہ پیمائی کرگئی
اِس لیت و لعل ہی میں یہ شام و سحر گئی
ایسے بھی شاعروں کی ہے بہتات آج کل
جو جانتے نہیں ہے کہاں سے بحر گئی
………………………
شاہدؔ عدیلی
غزل (طنز و مزاح)
وہ اپنی جان کو خطرہ لگائے رکھتا ہے
اک اَدھ مری بھی اگر گھر میں گائے رکھتا ہے
کرے جو وعظ تو واعظ کو غور سے دیکھو
زنانہ سمت ہی گردن گھمائے رکھتا ہے
زبان رکھ کے بھی کرتا ہے بات اشاروں سے
ہمیشہ منہ میں وہ گُٹکھا دبائے رکھتا ہے
ہم اُس کے حق میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں
ہمارے حق میں وہ کچھ اور رائے رکھتا ہے
غرض ہے جس سے کِھلاتا ہے اُس کو بریانی
ہمارے آگے تو بس چائے وائے رکھتا ہے
سخن ور اصلی نہاتا نہیں حقیقت میں
تصورات میں خود کو نہائے رکھتا ہے
دُلہے سے ملتے ہی کھانے کی گیٹ پر شاہدؔ
ہر ایک ہی نظریں جمائے رکھتا ہے
………………………
بلی کی بَلی …!
٭ شوہر کے دوست سہاگ رات میں پہلے ہی سمجھاتے ہوئے۔ اگر پہلے دن بلی مار دو گے تو ساری زندگی بیوی دبی اور ڈر کر رہے گی۔اس کے ساتھ ہی کمرے میں بلی بھی چھوڑ دی۔
شوہر نے پہلی بار بلی کو غصے سے ڈانٹ ڈپٹ کر باہر نکالا۔ تاکہ بیوی پر رعب پڑجائے۔ دوستوں نے پھر واپس روشن دان سے بلی کمرے میں پھینک دی ۔
اب شوہر نے تکیہ اٹھا کر بلی کو دے مارا اور دوبارہ کمرے کے باہر پھینک آیا اور بیگم سے بولا۔ دیکھو یہ میرا مزاج ہے۔ میں کسی کو خود کو تنگ کرنے اوراپنے سامنے آواز اٹھانے نہیں دیتا۔ یہاں ہرجگہ میری مرضی چلتی ہے۔
دوستوں نے تیسری بار بلی پھر اندر ڈال دی کہ مارنی تو تھی لیکن یہ بار بار باہر پھینک رہا ہے …!
اب کی بار بیوی نے اپنا پرس کھولا پسٹل نکالا اور بلی کو گولی مار کر بولی۔آپ تو صرف پروگرام بناتے رہیں گے میں تو ایسے چپ کراتی ہوں اپنے سامنے بولنے والوں کو۔
ابن القمرین ۔مکتھل
………………………
پھر جل گئی…!!
٭ ایک کار والے کو سفر کے دوران شک گزرا کہ انڈیکٹر کام نہیں کررہے ہیں ۔ اس نے گاڑی روک کر قریب سے گزرتے ہوئے دیہاتی سے کہا ’’ذرا دیکھ کر بتاؤ انڈیکٹر کی بتی جلتی ہے یا نہیں ؟ ‘‘ ۔
دیہاتی کار کے پیچھے جا کھڑا ہوا ’’چل رہی ہے ‘‘ … ہاں جل گئی … بند ہوگئی … جل گئی … بند ہوگئی … پھر جل گئی بند ہوگئی دیہاتی نے چیخ کر جواب دیا۔
سید حسین جرنلسٹ ۔دیورکنڈہ
………………………
خوشی کے مارے…!
آدمی : سر میری بیوی گُم ہوگئی ہے …!
پوسٹ مین : جناب ! یہ پوسٹ آفس ہے پولیس اسٹیشن نہیں …!
آدمی : اوہ ساری سر ، خوشی کے مارے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کہاں جانا ہے اور کہاں چلا جارہا ہوں …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
خواب اور حقیقت …!
٭ ایک آدمی نے کپڑے کی نئی دوکان کھولی ۔ افتتاح کی رات میں ہی اُس نے ایک خواب دیکھا کہ ایک گاہک اُس سے دس میٹر کپڑا مانگ رہا ہے ۔ خوش ہوکر اُس نے تھان سے کپڑا پھاڑنا شروع کیا ۔ تبھی اُس کی بیوی جاگ گئی اور چلائی ارے ! چادر کیوں پھاڑ رہے ہوں ۔ آدمی نیند میں بولا : کمبخت دوکان میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی ۔
صادق شریف ۔ میدک
………………………