شیشہ و تیشہ

انور مسعود
درسِ اِمروز
بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اْردو وہ زباں ہے کہ جو نافِذ نہیں ہوتی
………………………
دلاور فگار
ضرورت رشتہ
ایک لڑکا ہے اصیل النسل عالی خاندان
عمر ہے لڑکے کی ففٹی سکسٹی کے درمیان
قبض رہتا ہے نہ اس کو نزلہ کی تحریک ہے
ایک دن ٹی بی ہوئی تھی اب طبیعت ٹھیک ہے
آنکھ کی اک شمع روشن، دوسری تھوڑی سی گل
مختصر یہ ہے کہ لڑکا ہے بہت ہی بیوٹی فل
پی کے ما اللحم جب ملتا ہے داڑھی پر خضاب
اس کے چہرہ پر نظر آتے ہیں آثار شباب
طالب رشتہ، قیود علم سے آزاد ہے
کچھ ادیبوں کی طرح وہ فطرتاً استاد ہے
اس کے ہاتھوں میں کسی بھی ’’ ازم‘‘ کا تیشہ نہیں
اس مسلماں کو کسی فتوے کا اندیشہ نہیں
عالموں کے ساتھ رہ کر وہ بھی جید ہو گیا
پہلے جانے کیا تھا، رفتہ رفتہ سید ہو گیا
بر بنائے مصلحت یا بر بنائے انتقام
آج تک کنوارا ہے یہ وحدت پرستوں کا امام
اس کے بارے میں یہی کہتی ہے دنیا بالعموم
وہ موحد ہے اور اس کا کیش ہے ترک رسوم
شب کو براتے میں کہتا ہے مجھے دولہا بناؤ
کوئی بیوہ ہو تو اس کو میری منکوحہ بناؤ
کیا بتاؤں کس قدر دلچسپ باتیں اس کی ہیں
’نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں‘
شادیوں کی آج چونکہ گرمیِ بازار ہے
کوئی کنوارا شہر میں بچنا بہت دشوار ہے
سوچتا ہے اب کہ سہرا باندھ لے یہ نونہال
پیر نابالغ کو اب آیا ہے شادی کا خیال
اس کو لڑکی چاہیئے، لڑکی جو آوارہ نہ ہو
درحقیقت چاند ہو، مصنوعی سیارہ نہ ہو
جامعہ کی کوئی بھی ڈگری ہو اس کے ہاتھ میں
کوئی ڈپلومہ نہ لائی ہو سند کے ساتھ میں
زلف پیچاں کی جگہ پٹھے نہیں رکھتی ہو وہ
گھر پہ پہرہ کیلئے ’’کتے‘‘ نہیں رکھتی ہو وہ
اس کو لڑکی چاہئے، جو صورتاً لڑکا نہ ہو
جس کے دل میں شعلہ مردانگی بھڑکانہ ہو
لڑکی میکے میں قیام مستقل فرمائے گی
حال میں دو چار دن سسرال بھی آ جائے گی
لڑکی اپنے ساتھ لائے کم سے کم دو لاکھ کیش
تاکہ لڑکا بعد شادی کر سکے آرام و عیش
مستعد شوہر تو بس لیٹا رہے گا، صبح و شام
نان نفقہ کا بھی بیگم خود کریں گی انتظام
کوئی دوشیزہ اگر ہو حامل جملہ صفات
خط میں لکھ بھیجے کہ کس دن اس کے گھر پہنچے برات
بیاہ کی درخواست پر اردو میں لکھئے یہ پتا
عاشق ناشاد، ون بی، فیڈرل بی ایریا
کاش بر آئے کسی خاتون کے دل کی مراد
’’ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد‘‘
………………………
دوباتیں…!
بیوی : جانِ من ! ایسی دو باتیں بتاؤ ، ایک سے میں بہت خوش ہوجاؤں اور دوسری ایسی بات جو مجھے غصّہ دلادے۔
شوہر : ’’تم میری زندگی ہو‘‘
بیوی : دوسری …!
شوہر : ’’لعنت ہے ایسی زندگی پر !‘‘
رفعیدہ ، شاذل ۔ گلبرگہ شریف
………………………
جشن کا اثر …!
٭ دودوست چارمینار کے دامن میں چل رہے غزل پروگرام پر ملے ۔ ایک نے کہا یار ! ہم اور تم کالج کے دور سے ہی اس گلوکار کے بہت بڑے Fan رہے ہیں۔
دوسرے نے کہا ہاں یار ! یہ بات تو ہے لیکن اب ان کی آواز میں وہ کشش نہیں رہی ۔
دوسرے نے گفتگو کا سلسلہ مزاحیہ انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے کہا ۔ کیا کریں عمر بھی تو کافی ہوگئی ہے ، اسی لئے بیچارے آواز سے پیدل ہوگئے ہیں۔
دوسرے نے کہا ہاں یہ بات تو ہے اور جشنِ تلنگانہ نے انھیں روڈ پر کردیا …!
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد
………………………
کم بخت …!
وکیل (اپنے ساتھی سے ) تم نے میرے موکل کی حرکت دیکھی ؟دوسرا وکیل : کیا ہوا ؟
پہلا وکیل : میں نے اسے جعلی نوٹوں کے مقدمے میں بری کرایا اور وہ کم بخت فیس میں مجھے ہی جعلی نوٹ دے گیا ۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………