شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
اٹل فیصلہ …!
اب یہی ہے فیصلہ مجموعہ چھاپیں گے ضرور
چیز دُنیا سے چھپانے کی کہاں ہے شاعری
غم نہیں ہے ایک بھی نسخہ اگر بِکتا نہیں
بر تراز اندیشنہِء سُود و زیاں ہے شاعری
……………………………
حسن محی الدین سنجری سنجرؔ
مزاحیہ غزل
ایکچ میٹھا ایکچ کھانا کتے
لگن چکن اور شیرمال ہے سو ہے
مسجدوں میں پڑھارے اب عقد
لین دین نقد مال ہے سو ہے
کھا کو گھر کے ناٹاں گنتے کتے
اُن کا بچپن سے حال ہے سو ہے
کرتے سو کاماں اُن کے نئے دیکھے
سُرمگی اُن کی چال ہے سو ہے
ایک تیر سے نشانے دو اُن کے
یہ دھماکہ کمال ہے سو ہے
قرضہ لئے کو کسی کو دیتے نہیں
اُن کی زندہ مثال ہے سو ہے
سنجرؔ کنگال بناکے چھوڑے ستم
سر پو ترے رومال ہے سو ہے
………………………
کہیں خوشی ، کہیں غم …!
٭ جشن تلنگانہ پر ایک شاعر کو ایوارڈ ملا ، ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے فوٹو ، اُنھوں نے اپنے ایک شاعر دوست کو WhatsApp پر یہ لکھ کر پوسٹ کیا…
’’جئے تلنگانہ !‘‘
دوسرے روز شہر میں اچانک دھواں دار بارش ہوگئی اور سارا شہر تاریکی میں ڈوب گیا ۔
ایوارڈ سے محروم شاعر نے ، اس کے جواب میں بارش کے پانی اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے منظر کی تصویر یہ لکھ کر بھیجی
’’ہائے ہائے جشنِ تلنگانہ!‘‘
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد
………………………
دھوکہ کس کے ساتھ …!
نوکرانی مالکن سے : مالکن ! کیا بات ہے آپ بہت اُداس نظر آرہی ہیں ۔
مالکن : کیا بتاؤ ں تمہارے صاحب کو آفس میں کسی لڑکی سے پیار ہوگیا ہے …!
نوکرانی : نہیں ! مالکن یہ جھوٹ ہے ، صاحب مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے …!!
محمد حامداﷲ ۔ حمایت نگر
………………………
زندگی سے موت بھلی …!
٭ ایک مشہور ایکٹریس کی بلی نے باورچی خانے میں ایک چوہے کا گھیراؤ کیا ، وہ اُس پر حملہ کرکے اُسے ہڑپ کرنا چاہتی تھی کہ چوہے نے آنسو بھری نظروں سے ایکٹریس کی طرف دیکھا اور بولا ’’اگر تمہاری بلی میری جان بخش دے تو میں تمہاری تین خواہشیں پوری کرسکتا ہوں ! ‘‘۔
’’اچھی بات ! ‘‘ ایکٹریس نے جواب دیا ۔ میری پہلی خواہش یہ ہیکہ مجھے ایک لاکھ ڈالر فوراً مل جائیں ! …
یہ رہے ، چوہے نے چھت کی طرف اشارہ کیا اور نوٹوں کی بارش ہونے لگی …!
’’ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ میری خوبصورتی اور جوانی ہمیشہ برقرار رہے‘‘ ۔
چوہے نے کہا ’’تمہاری یہ آرزو بھی پوری ہوگی…!‘‘۔ اب میری آخری خواہش یہ ہے کہ ’’تم ایک امیر نوجوان اور حسین شہزادے بن کر مجھ سے شادی کرلو ‘‘۔
یہ سُن کر چوہے نے گھوم کر بلی کی طرف دیکھا اور کہا ’’ تو مجھے کھاتی کیوں نہیں ! کیا تو بھی چاہتی ہے میں اپنی زندگی برباد کرلوں ؟‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
………………………
پاگل کون ؟
٭ ایک مشہور ماہر دماغ ڈاکٹر پاگل خانے کے دورے پر گئے ۔ پاگلوں کے مشاہدہ کے دوران وہ پاگلوں کی حرکتوں سے کافی تھک گئے اور جب تھک ہارکر وہ باہر نکلے تو دیکھا کہ کار پنکچر ہوگئی ہے ۔ قریب میں کوئی نہیں تھا بڑی مشکل سے جو پہیہ پنکچر ہوا تھا اُسے بدل سکے لیکن اتفاق سے پہیہ کے چاروں نٹ ہاتھ سے پھسل کر قریبی گٹر میں گر گئے ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں ، کافی دیر تک کھڑے رہے ۔ کھڑکیوں سے پاگل الگ چیخ چیخ کر مذاق اُڑا رہے تھے ۔ اتنے میں ایک پاگل اندرسے پُکار کر بولا ’’ارے پاگل ! باقی تین پہیوں سے ایک ایک نٹ کھول کے اس پہیئے کو لگا اور گاڑی نکال لے…!
مظہر قادری ۔حیدرآباد
………………………