شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ
غازی…!
دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری
بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی
پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں
ماہِ صیام رخصت ، رخصت ہوئے نمازی
……………………………
مخلصؔ حیدرآبادی
فیضانِ عید!
شعورِ کلمۂ طیّب کو جگمگانا ہے
جہانِ کفر کی ہر تیرگی مٹانا ہے
بچے گناہ سے جس دن، وہی ہے عید کا دن
یہ یاد رکھیئے ، جو فیضانِ عید پانا ہے
………………………
عاتکہ نورؔ
شرارت نہ کیجئے …!
جاہل ہیں لوگ ، ان کی حمایت نہ کیجئے
کام آپ اپنا کیجئے، شرارت نہ کیجئے
لوہے کے ہم چنے ہیں، کوئی موم ہم نہیں
دریا میں یوں مگر سے، عداوت نہ کیجئے
اﷲ کا ہے حکم ، شریعت کہیں جسے
اس میں مداخلت کی، حماقت نہ کیجئے
چنگاریوں سے آگ بھڑک جائے نہ کہیں
بھڑکا کے گھر میں آگ، مصیبت نہ کیجئے
آساں نہیں جناب، بھڑوں سے مقابلہ
چھتے میں ہاتھ دینے کی، جرأت نہ کیجئے
رہتی ہیں ہم سے ساری، خواتین منسلک
پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی، زحمت نہ کیجئے
………………………
امی جان سے خالہ جان…!
٭ ایک بیس بائیس سالہ نوجوان سوپر مارکیٹ میں خریداری کیلئے داخل ہوا، کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ کوئی خاتون اسکا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہو گیا،لیکن وہ عورت مستقل اسکا پیچھا کر رہی تھی، اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا، وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا، ماں جی خیریت ہے…؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے، میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی، اور ابھی آپ نے مجھے امی جان کہا تو میرے دل کے جذبات فرطِ محبت و خوشی سے لائق بیان نہیں،عورت نے یہ کہا اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں ماں جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے ماں جی کہو گے؟
نوجوان نے اونچی آواز سے کہا جی ماں جی…لیکن خاتون نے گویا نہ سنا ہو، نوجوان نے پھر بلند آواز سے کہا جی ماں جی… عورت نے سنا اور نوجوان کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چومے، اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئی۔
نوجوان اس منظر کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، اور وہ اپنی خریداری پوری کیے بغیر واپس کاؤنٹر پر چل دیا، کاؤنٹر پر پہنچا تو کیشیئر نے دس ہزار کا بل تھما دیا۔
نوجوان نے پوچھا دس ہزار کیسے؟
کیشیئر : آٹھ سو کا بل آپ کا ہے اور نو ہزار دو سو آپکی والدہ کا، جنہیں آپ ابھی امی جان ! امی جان !کہہ رہے تھے…!
وہ دن اور آج کا دن،نوجوان اپنی حقیقی امی کو بھی خالہ جان کہتا ہے…!
جسیم الدین ۔ جہاں نما
………………………
میں تھک گئی ہوں …!
٭ ایک کسان ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور کہنے لگا۔’’ڈاکٹر صاحب اگلی بار جب آپ گاؤں آئیں تو میری بیوی کو بھی دیکھ لیں۔‘‘
’’خیریت تو ہے۔ کیا وہ بیمار ہے؟ ‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’نہیں بیمار تو نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا بات ہے؟ ‘‘۔
’’کچھ کہنا مشکل ہے۔‘‘
’’کچھ کہنا مشکل ہے …!‘‘
ہاںڈاکٹرصاحب ! کل صبح وہ معمول کے مطابق چار بجے اٹھی ، بھینسوں کا دودھ نکالا ، ناشتہ تیار کیا پھر ہفتے بھر کے کپڑے دھوئے ، صفائی کی دوپہر کا کھانا پکایا شام تک کھیتوں میں کام کیا پھر رات کا کھانا تیار کیا ، برتن دھو کر رکھے۔ رات کے دس بجے وہ مجھ سے کہنے لگی۔’’میں تھک گئی ہوں‘‘شاید اسے کسی ٹانک کی ضرورت ہے۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………