شیشہ و تیشہ

وحید واجد ؔ (رائچور)
کالا دھن …!
کالا دھن والے سب مزے میں ہیں
جو نہیں تھے وہ اب مزے میں ہیں
سارے دھنوان اصل میں واجدؔ
نِر دھنوں کے سبب مزے میں ہیں
………………………
شادابؔ بے دھڑک مدراسی
غزل ِ بے دھڑک
محفوظ میوزیم میں بھی ورثے نہیں رہے
ہیں صرف تاج ، تاج کے ہیرے نہیں رہے
فٹ پاتھ کے بھی لوگ اب اچھے نہیں رہے
جب نیند سے ہیں جاگے تو کپڑے نہیں رہے
سنسر شدہ وہ نہیں ہیں موبائیل دور کی
مت روکو ٹوکو اُن کو وہ بچے نہیں رہے
ہیں اصطبل میں عمر کے اک ٹٹو ناتواں
دریا میں دوڑتے تھے سو گھوڑے نہیں رہے
کرڈالا مایا جال نے اُس کو امیر شہر
آج اُس کے گھر میں مکڑی کے جالے نہیں رہے
تکئے تلے چھپاکے جو پڑھتے تھے میرے شعر
وہ معشوق اور اُن کے وہ تکئے نہیں رہے
کھاجاتے تھے شادابؔ چباکر کبھی مینڈھے
اب اس چکن چبانے کو جبڑے نہیں رہے
………………………
نام …!
٭ ایک عورت نے ایک دن اپنے شوہر کا موبائل چیک کیا، نام اسطرح سیو (محفوظ ) کئے ہوئے تھے
آنکھوں کا علاج …!
ہونٹوں کا علاج …!
دل کا علاج …!
بیوی نے نہایت غصّے میں اپنا نمبر ڈائل کیا…!!!
تواسکرین پر آیا
لا علاج…!
محمد مجاہد علی ۔ سنتوش نگر
………………………
پگلی کہیں کی …!
میں نے دروازہ کھولا تو
اس کی آنکھوں میں آنسو چہرے پہ ہنسی تھی
سانسوں میں آہیں دل میں بے بسی تھی
پگلی نے یہ نہیں بتایا کہ
اس کی انگلی دروازے میں پھنسی تھی
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
لیڈری زبان
٭ ایک لیڈر نے ڈاکٹر سے خواہش ظاہر کی میری رپورٹ ایسی زبان میں سمجھاؤ کہ میں آسانی سے سمجھ سکوں ۔
ڈاکٹر نے یہ سنکر لیڈری زبان میں کچھ یوں کہا آپ کا بلڈ پریشر گھوٹالے کی طرح بڑھ رہا ہے ، پھیپھڑے جھوٹی تسلیاں دینے لگے ہیں اور دل اپوزیشن کے اعتراضات پر استعفی دینے والا ہے !!
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
………………………
آزادی !!
٭ پاگل خانے کے معائنے پر آئی ہوئی ایک سوشل ورکر خاتون نے پاگل خانے کے سپرنٹنڈنٹ سے کہا ’’اُف کیسی جلاّد صفت نظر آتی ہے وہ عورت جس کے پاس سے ہم ابھی ابھی راہ داری میں گزرے تھے ، کیا وہ خطرناک ہے ؟
سپرنٹنڈنٹ ٹالنے کے انداز میں بولا کبھی کبھی خطرناک ہوجاتی ہے ۔
خاتون نے پوچھا : ’’تو پھر آپ نے اسے اتنی آزادی کیوں دے رکھی ہے ؟‘‘
سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا ’’مجبوری ہے ‘‘۔
خاتون نے کہا : کیسی مجبوری ؟ کیا وہ یہاں داخل نہیں ہے ؟
سپرنٹنڈنٹ نے وضاحت کی ، جی نہیں نہ وہ یہاں داخل ہے اور نہ اس پر میرا کنٹرول ہے، وہ میری بیوی ہے !‘‘۔
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
……………………………
نجومی
٭ ایک آدمی اپنے دوست کو بتارہا تھا۔ ’’جب میں پیدا ہوا تو میری ماں کو ایک نجومی نے بتایا کہ تمہارا بیٹا چالاک ، مکار ، دھوکے باز اور جھوٹا ہوگا ‘‘۔ یہ سن کر میری ماں گھبرا گئی اور اس نے بچپن سے ہی میرے دماغ میں ڈالنا شروع کردیا کہ نجومی جھوٹ بولتے ہیں ۔ لیکن آج 25 سال بعد مجھے پتا چلا کہ اس کی پیشن گوئی ٹھیک تھی ‘‘۔ دوست نے حیرت سے پوچھا ’’یار ! وہ کیسے ؟‘‘
’’وہ ایسے کہ آج میں خود نجومی ہوں !‘‘اُس نے جواب دیا ۔
نظیر سہروردی ۔ راجیونگر ، حیدرآباد
………………………