شیشہ و تیشہ

دلاور فگار
اردو ڈپارٹمنٹ!
اک یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے
میں کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ
کہنے لگے جناب سے مس ٹیک ہو گئی
آئم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
………………………
وفات ناگہانی!
خدا جانے سبب کیا تھا وفات ناگہانی کا
ابھی تک تو یہ زندہ تھی جو نہلاکر نچوڑا ہے
اماں رہنے دو نہلانے سے بلی کیسے مرجاتی
مجھے احمق بنانے کو شگوفہ خوب چھوڑا ہے
………………………
یاور علی محورؔ
سوائن فلو…!
زندگی کا سفر ہے بدبو میں
اُس کی شام و سحر ہے بدبو میں
خوف چھایا ہوا ہے سوّر کا
بھاگیہ کا نگر ہے بدبو میں
گل بدن تم قریب مت جانا
اُس کی جو بدنظر ہے بدبو میں
سانس اپنی سنبھال کر رکھنا
جس کی بھی رہ گذر ہے بدبو میں
کیسی آندھی چلی یہ بدبو کی
گھرگیا گھر کا گھر ہے بدبو میں
روشنائی میں آگئی بدبو
شعر کا خشک و تر ہے بدبو میں
مرض ایسا کہ سب متاثر ہیں
نرس اور ڈاکٹر ہے بدبو میں
تذکرے ہورہے ہیں بدبو کے
کیا بُرا ہی اثر ہے بدبو میں
دو اَماں یاحفیظ محورؔ کو
آج برق و شرر ہے بدبو میں
………………………
دلچسپ انکشاف …!
٭ امریکہ میں ایک حالیہ سروے سے یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ پچاس فیصد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہوجاتی ہے ، اس لئے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ! البتہ بقیہ پچاس فیصد جوڑوں کی طلاق چالیس سال کے بعد ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس اثناء میں وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
ریڈیو اور ٹی وی میں فرق !
بیٹی (ماں سے ) : ممی ! ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کیا فرق ہے ؟
ماں : بے بی …! جب تیرے پاپا اور میں گھر کے اندر لڑتے ہیں اور پڑوسی سُنتے ہیں تو وہ ریڈیو ہے ۔ لیکن جب تیرے پاپا اور میں گھر کے باہر لڑتے ہیں اور پڑوسی دیکھتے ہیں تو وہ ٹیلی ویژن ہے …!
رضیہ حسین ،قادر حسین ۔گلبرگہ شریف
………………………
ضرور معاف کردیتا …!
٭ ایک صاحب دوستوں کی محفل سے اُٹھ کر گھر پہونچے تو رات بہت زیادہ ہوگئی تھی گھبراہٹ میں اپنے فلیٹ سے اوپر کی منزل کے فلیٹ کی بیل دبادیئے ۔ دروازہ کُھلا اور یہ وقت ہے گھر آنے کا کہہ کر ایک عورت مسلسل مارنا شروع کردی ، کافی دیر بعد جب اُسے احساس ہوا تو شرمندگی سے بولی معاف کرنا میں سمجھی میرے شوہر آئے ہیں ؟
تو صاحب رونی صورت بناکر بولے ’’ضرور معاف کردیتا لیکن اسی صورتحال سے مجھے دوبارہ اپنے فلیٹ پر گذرنا ہے ‘‘۔
قادری ۔ حیدرآباد
………………………
کتنے روپے بچے ؟
ایک دوست دوسرے دوست سے : ’’یار مان لو کے تمہارے پاس ہزار روپئے ہیں ، میں تم سے 250 روپئے مانگوں تو تمہارے پاس کتنے روپئے بچے ؟ ‘‘
دوسرا دوست : 1000 روپئے ۔
پہلا دوست : ’’نہیں تو ٹھیک سے سونچ ، پھر بتا …‘‘
دوسرا دوست : ’’سونچ لیا ، 1000 روپئے ‘‘
پہلا دوست : ’’نہیں یار ! 1000 روپئے میں سے جب تو مجھے 250 روپئے دے دیگا تو باقی 750 روپئے ہی بچیں گے ‘‘۔
دوسرا دوست : ’’نہیں ! میرے پاس 1000 روپئے ہی بچیں گے ‘‘۔
پہلا دوست : ’’اچھا وہ کیسے ؟ ‘‘
دوسرا دوست : تو نے کیسے سونچ لیا کہ تو مانگے گا ، اور میں دے ہی دونگا…!‘‘
مبشر سید ۔ چنچل گوڑہ
………………………