شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
باخبر …!
اُن کے بارے میں ہے اَپ ٹو ڈیٹ اپنی آگہی
کون سے تھے جن کے ہم زخمِ جُدائی سہہ گئے
شکر ہے نسوار کی ڈِبیا پہ آئینہ بھی ہے
دیکھ لیتے ہیں کہ کتنے دانت باقی رہ گئے
……………………………
ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ
مزاحیہ غزل (پیاز)
کیسے ہم کو رُلارہی ہے پیاز
دل کو کیسے دُکھا رہی ہے پیاز
سونے چاندی کو کس نے دیکھا ہے
اب تو منہ کو چھپا رہی ہے پیاز
ہند کی ہوکے بکی بدیشوں میں
دور کیسا دکھارہی ہے پیاز
کوئی قلّت نہیں ہے اس کی پر
دام اپنے بڑھا رہی ہے پیاز
دال و روٹی وہ پیاز کھاتے تھے
خالی روٹی کھلا رہی ہے پیاز
دور ایسا بھی ہم نے دیکھا ہے
تخت دہلی ہلا رہی ہے پیاز
مہنگے چاول ہیں مہنگی ترکاری
بھاؤ اپنے بڑھا رہی ہے پیاز
ساتھ دولہن کے پیاز دوٹن دو
جوڑا گھوڑا بُھلا رہی ہے پیاز
اب دعائیں ہی کرتے رہنے کو
دیکھ ہم کو جتا رہی ہے پیاز
ہم نے دیکھے کئی گھٹالے پر
دور کیسا دکھا رہی ہے پیاز
عورتیں پہلے روتی تھیں صادقؔ
مردوں کو اب رُلا رہی ہے پیاز
………………………
وہ کس لئے …!
شوہر بیوی سے : تمہاری روز روز کی شاپنگ سے میں تنگ آگیا ہوں اس لئے خودکشی کرنے جارہا ہوں ؟
بیوی : جاتے جاتے ایک دو وائیٹ جوڑے دلادیجئے …!
شوہر : وہ کس لئے ؟
بیوی : عدت کے دنوں میں کیا پہنوں گی !
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
………………………
کُتے چالے …!
زید : یہ بمبئی کے کُتّے بہت خطرناک ہیں!
بکر : کیا مطلب ؟ کُتّا کُتّا ہی ہوتا ہے چاہے وہ بمبئی کا ہو یا گجرات کا یا کسی اور جگہ کا ، ان میں کوئی تخصیص نہیں ہوتی ۔
زید : میرا اشارہ اس کُتّے کی جانب ہے جو کچھ دن پہلے بمبئی میں ایک خاتون کو کاٹ لیا تھا ۔ ارے بھئی کمبخت کو کاٹنا ہی تھا تو کم از کم ٹانگ پر کاٹتا ۔ ظالم نے تو خاتون کا کلاّ (چہرہ ) ہی کاٹ لیا جس پر 65 ٹانکے لگے ، یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا جو اخباروں میں چھپا ہے !
بکر : مگر وہ تو ایک گھریلو تربیت یافتہ پالتو  کُتّا تھا !
زید : ہاں تھا تو تربیت یافتہ اور پالتو کُتّا لیکن کُتّا آخر کُتّا ہی ہوتا ہے خواہ کتنا ہی تربیت یافتہ کیوں نہ ہو ، وہ کبھی بھی کُتّا پن اور کُتّے چالے کرسکتا ہے اس پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔
بکر  : ہاں ! سچ کہتے ہیں آپ ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برا وقت آنے پر اُونٹ سوار کو بھی  کُتّا کاٹ لیتا ہے ۔ اﷲ محفوظ رکھے کتبوں سے خصوصاً جبکہ وہ پاگل ہوں ۔
زکریا سلطان ۔ ریاض ، سعودی عرب
………………………
دو راستے …!!
٭  ہوائی جہاز کے سفر میں ائر ہوسٹس نے ایک مسافر کو بتایا۔ اگر آپ خاتون مسافروں کو تنگ نہ کریں تو سگار پی سکتے ہیں۔
مسافر نے خوش ہو کر کہا : مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے لیئے دو راستے کھلے ہیں۔ ایسی صورت میں سگار پینا بھلا کون پسند کرے گا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
سوچھ بھارت !
٭  شوہر گھر میں قدم رکھتے ہی ، بیگم اوہ بیگم ! کہاں ہو تم بچہ رو رہا ہے اور تم کیا کررہی ہو؟
بیوی غصے سے : گھر کی صفائی کررہی ہوں ۔
شوہر : پہلے بچے کو گود میں لو۔
بیوی : یہ لو جھاڑو باقی کے گھر کی صفائی کردو ۔
شوہر تعجب سے : بیگم ! میں اور صفائی …؟
بیوی : ہاں ! باہر دیکھ نہیں رہے ہو بڑے بڑے لیڈرس ہاتھ میں جھاڑو لیکر سڑکیں صاف کررہے ہیں ’سوچھ بھارت‘ کے نام پر تم کو تو میں گھر کی صفائی کے لئے کہہ رہی ہوں… بیوی نے غصے سے کہا …!!
سالم جابری ۔ آرمور
………………………