شیشہ و تیشہ

شاہدؔ عدیلی
تُک بندی…!
اب کہاں شعر میں وہ غالبؔ و اقباؔل کا رنگ
یا تو تُک بندی ہے یا قافیہ پیمائی ہے
نام کے ہجّے کرو یا یہ بتادو کہ غزل
خود ہی لکھی ہے کہ اُستاد سے لکھوائی ہے
………………………
خاص بات …!
٭  کچھ لوگ اپنے پالتو کتوں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ایک خاتون نے بڑے فخر و مسرت کے ساتھ اپنے شوہر سے کہا کہ دیکھو ہمارا رُوبی کتنا اچھا ہے ، روز صبح سویرے پابندی سے نیوز پیپر لاکر میز پر رکھ دیتا ہے ۔
شوہر نے کہا وہ کونسی خاص بات ہے یہ کام تو بہت سے دوسرے کُتے بھی کرتے ہیں۔
بیوی نے کہا خاص بات یہی تو ہے کہ ہم نے کوئی نیوز پیپر سبسکرائب ہی نہیں کیا۔
زکریا سلطان ۔ ریاض(سعودی عرب )
………………………
مُرغ کی بانگ…!
٭  انگلستان میں لوگوں کا خیال ہے کہ مُرغ اسی وقت بانگ دیتا ہے جب کسی مقام پر کوئی نہ کوئی جھوٹ بولا جاتا ہے ۔ ایک شام کو چند دوستوں میں یہی گفتگو ہورہی تھی کہ ایک اخبار نویس آگیا وہ کہنے لگا ۔ ’’مرغ عموماً صبح کو ہی بانگ دیتے ہیں‘‘ ۔
ایک حاضر جواب بولا : ’’یہ سچ ہے کیوں کہ اسی وقت صبح کے اخبار چھپا کرتے ہیں ‘‘۔
نظیر سُہروردی۔ حیدرآباد
………………………
پروفیسر …!
٭  ایک مرتبہ بہت سارے پروفیسرس ایک ہی جہاز میں سوار ہوگئے ۔ جب وہ بیٹھ چکے تو انھیں بتایا گیا کہ یہ جہاز آپ کے شاگردوں نے ہی بنایا ہے ۔ یہ سُن کر سب کے سب پروفیسرس اُٹھ کر جہاز سے باہر آگئے ۔ سوائے ایک پروفیسر کے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ باہر کیوں نہیں ائے ۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر یہ میرے شاگرد نے بنایا ہے تو اُڑے گا ہی نہیں ۔
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ کوہیر
………………………
بدقسمت …!
٭  وکیل نے کافی شدومد سے بحث کیا کہ اُس کا موکل صرف سو روپئے اس لئے چُرایا کہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹاسکے ۔ وہ اگر حقیقت میں چور ہوتا تو سو کی نوٹ کے بازو ہی رکھا ہوا دس تولے کا سونے کا ہار بھی چُراسکتا تھا ۔
جج وکیل کی دلیل سے متفق ہوکر چور کو بری کردیا ۔
عدالت سے باہر نکلنے کے بعد چور اپنے سر کو پیٹ کر رونے لگا تو وکیل نے پوچھا ، اب تو بری ہوگئے رو کیوں رہے ہو؟ تو چور نے کہا میری قسمت ہی خراب ہے جو مجھے اس سو روپئے کی نوٹ کے قریب پڑا ہوا سونے کا ہار نظر نہیں آیا ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
میں خود …!!
٭  ایک صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی تھی وہ پہلی بار سسرال گئے ان کی خوب آو بھگت ہوئی دو تین روز تک تین وقت کے کھانے میں پالک کی مختلف چیزیں پکتی رہی ، وہ پالک کھاتے کھاتے بیزار ہوگئے ۔
چوتھے دن اُس کی ساس نے اُس سے پوچھا: ’’بیٹا !بتاؤ آج کیا کھاؤ گے ؟ ‘‘
اُن صاحب نے بڑی ہی عاجزی سے کہا…! ساسو ماں ! آپ کیوں تکلیف کرتی ہیں مجھ کو وہ پالک کا کھیت بتادیجئے میں خود چر کر آجاؤں گا …!!
ارشادالرحمن ۔ کرنول
………………………
جب داد ملے …!
٭  جوش ملیح آبادی کے صاحبزادے سجاد کی شادی کی خوشی میں ایک بے تکلف محفل منعقد ہوئی جس میں جوشؔ کے دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ انکے جگری دوست ابن الحسن فکرؔ بھی موجود تھے۔
ایک طوائف نے جب بڑے سُریلے انداز میں جوش صاحب کی ہی ایک غزل گانی شروع کی تو فکرؔ صاحب بولے:
’’اب غزل تو یہ گائیں گی، اور جب داد ملے گی تو سلام جوش صاحب کریں گے‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………