شیشہ و تیشہ

خیالؔ کانپوری
اچھے دن کے دیکھو حال …!
اچھے دن کے دیکھو حال
ایک سو چالیس میں ہے دال
چھوٹے تو تھے ہی کنگال
بڑے بڑے ہوئے بدحال
پیاز کی مت پوچھو چال
ستر تک پہونچی فی الحال
دھنیا مرچے کی یہ اُچھال
اب تو چٹنی بھی جنجال
قرض سے اُدھڑی چمڑی کھال
کسان لگائے پھندا جال
بجلی پانی ہر سو کال
اڈانی ، امبانی مالا مال
امریکہ ، چین دوبئی نیپال
ملکوں ملکوں گھومو لال
کالے دھن کی باتیں ٹال
سب پر چپ کا پردہ ڈال
ویاپم ، راجے ، للت گھوٹال
کھائے کمائے چوکڑی چنڈال
کون سنے گا یہ سب حال
لیڈر ہوئے گینڈے کی کھال
جنتا کا اب کسے خیالؔ
جیو بہادر نٹور لال
………………………
کچھ پیازی مکالمے …!
٭   میرے کرن ارجن آئیں گے اور دو کیلو پیاز لائیں گے۔
٭   یہ ڈھائی کیلو کے پیاز جب آدمی لیتا ہے ناں ، تو آدمی اٹھتا نہیں اٹھ جاتا ہے!
٭   میرے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے بنک بیلنس ہے روپیہ ہے پیسہ ہے ، تمہارے پاس کیا ہے؟
میرے پاس ’’پیاز ‘‘ہے بھائی!
٭   جن کے گھر پیاز کے سلاد ہوتے ہیں، وہ بتی بجھا کر کھانا کھاتے ہیں۔
٭   چنائے سیٹھ! پیاز بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں ہوتی، کٹ جائے تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔
٭   میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا صاحب… پیاز ہو تو الگ بات ہے!
٭   لگتا ہے سبزی منڈی میں نئے آئے ہو برخوردار… سارا شہر مجھے ’پیاز ‘کے نام سے جانتا ہے…!
٭   گیارہ ملکوں کی سرکار مجھے ڈھونڈ رہی ہے، پر پیاز کو خریدنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے!
٭    یہ دونوں پیاز مجھے دے دو ٹھاکر !!
٭   تمہیں چاروں طرف سے پولیس نے گھیرلیا ہے گبر، اپنی ساری ’پیاز ‘قانون کے حوالے کر دو۔
مولانا عبدالعلیم کوثر ۔ مکتھل
………………………
پہلے یہ …!
٭  دو دوست آپس میں حالاتِ حاضرہ پر محو گفتگو تھے ، ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں ، اسی دوران موضوع گفتگو آپہنچی مہنگائی پر ، ایک نے کہا یار ترکاری ، گوشت ، چاول اور دال کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھورہی تھی اب یہ پیاز !
جیسا ہی پیاز کا ذکر آیا دوسر نے کہا ، ’’پیاز ! پیاز کی بات ہی نہ کرو یار ، یہ تو ہمیشہ سے ہی رُلاتی رہی ہے ‘یہ الگ بات ہے کہ پہلے یہ عورتوں کو رلاتی تھی لیکن اس کی قیمت اب مردوں کو رُلارہی ہے ‘‘۔
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد (دکن)
………………………
ایک بھی نہیں …!
مکان مالک ( کرایہ دار سے ) :’’ بیٹا ! پورے سال تو اتنی تمہاری کزن سسٹر اور دیگر رشتوں کی بہنیں آتی رہیں ، پر راکھی والے دن  ایک بھی نہیں آئی …؟‘‘
عبدالقدوس ۔ ملک پیٹ
………………………
دروغ گوئی …!
٭  پانچ دوست اندھا ، بہرہ ، لنگڑا ، بغیر ہاتھ والا اور فقیر جنگل سے گذر رہے تھے ۔ ایک اور قافلہ والوں نے بازو سے گذرتے ہوئے کہا … ’’جنگل ہے جلد نکل جاؤ پیچھے سے چوروں کے آنے کی اُمید ہے ‘‘۔
یہ سن کر اندھا اپنے ساتھیوں سے بولا شاید چور قریب ہی ہوں گے مجھے دھول اُڑتی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ سن کر بہرہ بولا … ’’ہاں ! مجھے بھی گھوڑے کہ ٹاپوں کی آواز آرہی ہے ‘‘ تو لنگڑا بولا … ’’تو دیکھ کیا رہے ہو چلو سرپٹ بھاگ نکلیں گے ‘‘۔ یہ سن کر بغیر ہاتھ والا بولا ’’ہم بزدل نہیں ہیں ، آنے دو تلوار سے ایک ایک کی گردن اُڑا دیں گے ‘‘۔ چاروں کی باتیں سُن کر فقیر بولا تم لوگ اگر ایسے ہی باتیں کرتے رہے تو چور آکر مجھیں لوٹ لیں گے …!!‘‘
مظہر قادری۔ حیدرآباد
………………………