شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر معید جاویدؔ
دل کے ٹکڑے…!
اشک آنکھوں سے پی رہے ہیں ہم
تم پر مر مر کے جی رہے ہیں ہم
دل کے ٹکڑے جو تم  نے کر ڈالے
اپنے ہاتھوں سے سی رہے ہیں ہم
………………………
فرید سحرؔ
گھر کو بسانا…!
چائے بنانا اور ہے
سرکار چلانا اور ہے
شادی سب ہی کرتے ہیں
گھر کو بسانا اور ہے
………………………
جونیر پاگلؔ عادل آبادی
دو ہزار کا نوٹ …!
اے نوٹ میری جان تجھے دیکھنے کے بعد
بڈھا بھی ہے جوان تجھے دیکھنے کے بعد
چوبیس گھنٹے ترے جعلی ہونے کے تبصرے
پبلک کے درمیان تجھے دیکھنے کے بعد
تو ایسی جِھل جِھلی کہ ترے کلر کو دیکھ کے
بچہ بھی چُوستا ہے زبان تجھے دیکھنے کے بعد
نوٹ بندی کا فارمولا امبانی کو بتاکے
چلدیئے مودی جاپان تجھے دیکھنے کے بعد
………………………
عزت افزائی کا شکریہ …!
٭  نوٹ بندی کے بعد آج کل دو ہزار روپئے کی نئی نوٹ تڑوانے کا مسئلہ لاحق ہوگیا ہے ، کوئی چلر دینے کو تیار نہیں ہے اور مارکٹ میں سو کے نوٹوں کی قلت ہوگئی ہے ، اب سو کی نوٹ دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے ۔
راستہ چلتے ایک صاحب سے کسی نے پوچھا ، کیا آپ کے پاس دو ہزار روپئے کا چلر ملے گا …؟
انھوں نے بڑی انکساری سے کہا ، جی نہیں ! مگر عزت افزائی کا شکریہ کہ آپ نے مجھ ناچیز کو اس قابل سمجھا…!!
زکریا سلطان ۔ ریاض سعودی عرب
………………………
آپ تو ہیں …؟
ڈاکٹر ( مریض سے ) آپریشن کے ٹیبل پر : فکر مت کرو ۔ میں ہوں نا …!!
مریض : آپ تو ہیں ۔ ڈر رہا ہوں کہ میں رہوں گا یا نہیں …!!
………………………
اس کا مطلب …؟
ڈاکٹر ( مریض سے ) : اب تم آسانی سے علاج کے بعد چلتے ہوئے گھر جاسکوگے اس لئے کہ اب تمہارا مزاج اچھا ہوا ہے ۔
مریض : اس کامطلب ہے میرے پاس آٹو کا کرایہ ادا کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں بچیں گے ۔
شعیب علی فیصل۔ محبوب نگر
………………………
کیا ہوا …؟
٭  صبح صبح بیوی نے کہا : اُٹھو جی ، میرے لئے ناشتہ بنادو ۔ شوہر اُٹھ کر باہر جانے لگا ۔
بیوی چلائی : ارے کہاں چل دیئے ؟۔
شوہر بولا : اپنے وکیل کے پاس ، مجھے تم سے طلاق لینا ہے ۔
شوہر وکیل کے گھر گیا اور وہاں سے اُلٹے پیر لوٹ آیا اور آتے ہی چُپ چاپ ناشتہ بنانے لگا ۔
بیوی : کیا ہوا ؟ وکیل سے نہیں مل آئے …؟
شوہر :وکیل سے کیا خاک ملتا ، اس کی بیوی بولی تھوڑی دیر بعد آنا ، وکیل صاحب برتن مانجھ رہے ہیں …!!
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
………………………
اپنائیت …!
٭  ایک سیاست دان قیدیوں کی حالت کا جائزہ لینے کیلئے جیل پہنچا . جب کھانے پر سارے قیدی اکٹھے ہو گئے تو جیلر نے سیاست دان سے درخواست کی کہ وہ قیدیوں سے خطاب کریں۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر سیاست دان نے تقریر شروع کر دی۔
’’ میرے معزز شہریو !‘‘
مگر قیدیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے خیال آیا کے جیل میں آنے کے بعد وہ معزز شہری نہیں رہے . اس نے فوراً اپنی بات کی اصلاح کی ’’ میرے ساتھی مجرمو !‘‘
لیکن یہ الفاظ تو پچھلے الفاظ سے بھی زیادہ خطرناک تھے چنانچہ اس نے جھلا کر کہا۔ ’’ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تمہیں کیا کہہ کر مخاطب کروں لیکن خود کو تمہارے درمیان پا کر بہت خوشی ہو رہی ہے ، یوں لگتا ہے کے جیسے میں اپنوں میں آگیا ہوں ۔‘‘
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ چندرائن گٹہ
………………………