شیشہ و تیشہ

شاداب بے دھڑک ، مدراسی
فنِ طنز و مزاح
میں پرائے تجربوں کی ہمسری کرتا نہیں
غیر کی تخئیل سے رسّہ کشی کرتا نہیں
مجھ کو پڑھتی ہیں کِتابیں لفظ لکھتے ہیں مجھے
میں غلت رکھ کر مقابل شاعری کرتا نہیں
………………………
مرزا یاور علی محورؔ
مزاحیہ وطنزیہ غزل
جانِ جاناں تجھے ہوا کیا ہے
تیری زلفوں میں یہ بفا کیا ہے
آپ جھوٹے ہیں بات سچی ہے
اور کچھ آپ سے کہا کیا ہے
گُم ہے نیتا نشہ میں کرسی کے
خوب وہ جانتا نشہ کیا ہے
قرض داروں سے پوچھ کر دیکھو
تم نے پایا ہی ہے دیا کیا ہے
ہیں دُعائیں جو میرے مرنے کی
قرض دینے کا یہ صلہ کیا ہے

ڈاکوؤں سے بھی ہے گیا گذرا
وہ غریبوں کو لوٹتا کیا ہے
چور عالی جناب ہیں لیڈر
مرتبہ اُن کا پوچھتا کیا ہے
خوف طاری ہے اُس پہ بیگم کا
بھوت کیا چیز ہے بلا کیا ہے
وہ جو کھاتا ہے ذائقہ کے لئے
پوچھ پہلے پہل پکا کیا ہے
فیس لیتا ہے بس دوا لکھنے
وہ نہیں جانتا دُعا کیاہے
جبکہ اُردو نکل گئی ہم سے
اس نئی نسل میں بچا کیا ہے
ہے سند اُس کے پاس ڈگری کی
یہ نہ پوچھو کہ جانتا کیا ہے
بھائی نکلے بھلائی کرنے کو
خود نہیں جانتے بھلا کیا ہے
کیوں کھٹکتے ہو نام محورؔ سے
حامل حور کے سوا کیا ہے

………………………
وہ جو کتا نہیں ہے …!
٭ امریکی ریاست ٹیکساس کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کتے پالنے کا شوق ہے ۔ پالتو کتوں کیلئے جو گھر بنائے جاتے ہیں وہ کتوں کے عام گھروں سے بڑے ہوتے ہیں ۔ جس طرح اس ریاست کے شہر فورٹ ورتھ کا باشندہ تھا ، اس کا قصہ بڑا دردناک ہے اس نے شادی کی اور شادی کے تیسرے دن وہ گھر سے نکال باہر کیا گیا ۔ خاصی بے عزتی ہوگئی تھی ، اس لئے اس نے قانون علحدگی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ۔

عدالت نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’حضور عالی! شادی کے ابتدائی دو دنوں تک تو میں صورتحال برداشت کرتا رہا ، تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ ایک گھر میں 29 کتے کچھ زیادہ ہیں، اب یا تو یہ رہیں گے یا میں رہوں گا ۔ اس پر بیوی نے کہا ’’وہ جو کتا نہیں ہے گھر سے بے شک چلا جائے ۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم

………………………
ہنسا اس لئے …!
٭ ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ اسکی رعایا میں سے جو شخص ایک ایسا پھل اس کی خدمت میں پیش کرے جو کہ بادشاہ کی پسند کے مطابق ہو تو بادشاہ اس پھل کے برابر اس شخص کو ہیرے جواہرات سے نوازے گا اور اگر پھل پسند نہ آیا تو اس شخص کو ثابت نگلنا ہو گا۔سب سے پہلے ایک شخص بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بیر پیش کیا۔بادشاہ نے اس کو نا پسند کر دیا اور اس نے بیر کو نگل لیا۔ پھر ایک دوسرے شخص نے سیب پیش کیا بادشاہ نے اس کو بھی نا پسند کر دیا تو وہ شخص پہلے رونے لگا پھر تھوڑی دیر بعد ہنسنے لگا۔
بادشاہ نے پوچھا کہ تم پہلے رونا شروع کیا بعد میں ہنسے کیوں؟
اُس شخص نے جواب دیا کہ میں رویا اس لئے کے میں سیب کو نگل نہیں سکتا اور ہنسا اس لئے کہ باہر ایک اور شخص تربوز لایا ہے۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ

………………………
نہیں صاحب…!
فقیر : دس روپئے دیدو صاحب چائے پیوں گا …! آدمی : چائے تو پانچ کی آتی ہے ۔
فقیر : گرل فرینڈ بھی پئے گی …!
آدمی : فقیر نے بھی گرل فرینڈ بنالی …؟
فقیر : نہیں صاحب ! گرل فرینڈ نے فقیر بنادیا …!
محمد امتیاز علی نصرت ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………