شیشہ و تیشہ

وحید واجد (رائچور)
پُوچھونکو
لیڈراں چھوٹے بڑے پوچھو نکو
سب کے سب چِکنے گھڑے پوچھو نکو
نکّو بولے تو الیکشن پھر لڑکے
منہ کے بَل گِر کو پڑے پوچھو نکو
بَیل گائے کے قصایاں آج کل
بیچ رئیں اِڈلی وڑے پوچھو نکو
مرتے دم تک ٹوکرے میں ہی رہیں گے
سب کے سب ہیں کیکڑے پوچھو نکو
جیب کترے، غنڈے ، قاتل ، قیدیاں
سب الیکشن میں کھڑے پوچھو نکو
جو ہُوا سو ہوگیا تاریخ میں
کون ہیں مُردے گڑے پوچھو نکو
دونوں مُرغی انڈے کو لے کر بہت
اب بھی ہیں ضِد پو اڑے پوچھو نکو
کُھل گئے ہیں جب سے بیوٹی پارلر
سب بدل رئیں تھوبڑے پوچھو نکو
نکّو بولے تو پیا میں کیا کروں
پُورے کنڈم پھیپھڑے پوچھو نکو
کون سا صابن دیئے پاشا میاں
سِر کے بالاں سب جھڑے پوچھو نکو
منع کرکے ہم کو واجدؔ گوشت سے
خود ہی کھارئیں چھیچھڑے پوچھو نکو
………………………
لاجواب
٭  ایک نوجوان نے بزرگ سے پوچھا: ’’جب دنیا فانی ہے تو پھر لوگ اس کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟‘‘
’’پیسہ دنیا میں رہ جائے گا تو پھر لوگ اس کے پیچھے زندگی کیوں لٹا دیتے ہیں؟‘‘
’’ فانی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے دوستوں کو دشمن کیوں سمجھتے ہیں ‘‘
بزرگ نے مسکراتے ہوئے زمین سے کانٹا اٹھایا اور نوجوان کے تینوں سوالوں کا ایک خوبصورت جملے میں کانٹا منہ کے قریب لاکے دانتوں میں پھنسی ہوئی چھالیہ نکالتے ہوئے جواب دیا : ’’ جا بھئی اپنا کام کر‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
ضرور نظر آئیں گے …!
٭  ایک دیہاتی ایک فوٹو اسٹوڈیو میں گیا اور بولا ’’مجھے ایک پاسپورٹ سائز فوٹو بنوانی ہے لیکن فوٹو میں میرے پیر کے نئے جوتے بھی آنا چاہئے …!فوٹو گرافر بولا : ’’ضرور جوتے نظر آئیں گے لیکن اس کیلئے آپ کو جوتوں کو سر پر رکھ لینا ہوگا …!!‘‘
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر۔ سکندرآباد
………………………
حیرانی کی کیا بات …!
٭  ایک دوست نے دوسرے دوست سے اپنی بیوی کی تعریف کرتے ہوئے کہا : ’’میری بیوی اتنی پڑھی لکھی ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر ایک گھنٹے تک آرام سے بات چیت کرسکتی ہے ‘‘ ۔
دوسرے دوست نے کہا : ’’ تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ، یہ تو ان پڑھ عورتیں بھی آسانی سے کرلیتی ہیں اور اس کے لئے کسی موضوع کی شرط بھی نہیں ہوتی …!!‘‘
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ ، کوہیر
………………………
بُرا حال …!
٭  ایک کنجوس امیر آدمی کے پاس ایک فقیر آیا اور اُسے اپنی دُکھ بھری کہانی سنانی شروع کی ۔ اُس کا لہجہ اتنا دردناک تھا کہ اُس امیر آدمی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ اُس نے اپنے نوکر کو آواز دی تو فقیر سمجھا کہ شاید اب کچھ امداد مل جائے گی لیکن نوکر آیا تو امیر آدمی نے اُس سے کہا : ’’اس کمبخت کو دھکے دیکر نکال دو ، اس نے رُلا رُلاکر بُرا حال کردیا ہے ‘‘۔
امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی
………………………
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
٭  دو دوست کافی دنوں بعد ملے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا : ’’بتاؤ یار…! تمہارے عشق کا کیا عالم ہے ؟‘‘
دوسرے نے افسردگی سے کہا : ’’وہ تو چھ ماہ ہوئے ختم ہوگیا ‘‘۔
دوست نے ہمدردی اور تاسف سے کہا : ’’پھر تو تم اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھی ترس گئے ہوں گے …!!‘‘
دوسرے دوست نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا:شکل تو اس کی روزانہ ہی دیکھنی پڑتی ہے، میری اس سے شادی جو ہوگئی ہے !!‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
………………………