شیشہ و تیشہ

افتخار راغبؔ
عقد ثانی
کیا حماقت بیاں کروں راغبؔ
خوش گمانی میں ہاتھ ڈال دیا
عقد ثانی کا تجربہ مت پوچھ
گرم پانی میں ہاتھ ڈال دیا
………………………
پاگلؔ عادل آبادی

پاگل عادل آبادی کا حقیقی نام احمد شریف تھا۔ وہ حیدرآباد (دکن) کے مشہور مزاحیہ شاعر تھے۔ انہیں کئی اہم ادبی اور تعلیمی تقاریب میں بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا۔انہوں نے کئی مزاحیہ نظمیں لکھیں۔ ذیل میں انہوں نے ہندی فلموں میں محمد رفیع کے گائے مشہور نغمے بابل کی دعائیں لیتی جا کی ایک مزاحیہ پیروڈی ’’ناکام عاشق کی بد دُعا‘‘ لکھی جو قارئین کیلئے پیش ہے:
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
کھچڑی کی کبھی نہ یاد آئے جا تجھ کو چنے کی دال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
ہر سال ہو تیری گود ہری بچے ہوں تجھے دو چار ڈزن
پنکچر ہو ترے ناز و نخرے ہو تیری اداؤں کا ایندھن
تُو بال ہے ٹیبل ٹینس کا جا تجھ کو پتی فُٹ بال ملے
غارت ہو کچن میں حُسن تیرا یہ روپ ہو تیرا باسی کڑھی
چیخے تُوکُڑک مرغی کی طرح ہر ایک منٹ ہر ایک گھڑی
تْو جھڑکیاں کھائے شوہر کی شوہر بھی گرو گھنٹال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
گالوں میں ترے پڑ جائیں گڑھے چہرے پہ نکل آئے چیچک
یہ ریشمی زلفیں جھڑ جائیں لگ جائے جوانی میں عینک
سسرا بھی تجھے خوں خوار ملے اور ساس بڑی چنڈال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
شوہر ہو ترا لنگڑا لولا ہو عقل سے پیدل چکنا گھڑا
ہو کھال بھی اس کی گینڈے سی
ڈامبر سے بھی رنگ پختہ ہو ذرا
کشمیر کی تجھ کو خواہش تھی جا تجھ کو شہر بھوپال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
شادی کا کیا مجھ سے وعدہ دھنوان سے شادی کر ڈالی
رَن آؤٹ مجھے کروا ہی دیا اور سنچری اپنی بنوا لی
دل تُو نے جو توڑا پاگلؔ کا جا تجھ کو کوئی قوال ملے
………………………
بہتر کی تلاش…!
٭  ایک عورت کا شوہر گم ہوگیا اس نے اخبار میں اشتہار دیا ’’میرے شوہر گم ہوگئے ہیں ، اُن کی عمر 30 سال ہے ، انتہائی اسمارٹ ، گورے ، اونچا قد اور اعلیٰ درجہ کا سوٹ پہنے ہوئے ہیں‘‘۔
عورت کی سہیلی نے جب یہ اشتہار دیکھا تو پوچھی تمہارے شوہر تو کالے ، پستہ قد ، موٹے اور انتہائی بدہیت اور معمولی کپڑے پہنتے ہیں پھر ایسا اشتہار کیوں دیا؟
تو عورت نے اطمینان سے کہا ’’اب کی بار بہتر مل جائے تو کیا بُرا ہے …!‘‘۔
ناشاد۔ حیدرآباد
………………………
اپنا سوچیئے …!
٭  ایک امریکی باپ نے نہایت درد بھرے لہجے میں اپنے نوعمر سرکش بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی:’’بیٹا! اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ میں اور تمہاری مما ہمیشہ تو تمہاری رہنمائی کیلئے دنیا میں نہیں بیٹھے رہیں گے۔ ذرا سوچو کہ اگر آج میں اچانک مر جاؤں تو تم کہاں ہو گے ؟‘‘
بیٹے نے موسیقی کی دھن پر تھرکتے ہوئے جواب دیا :’’اگر آپ اچانک مرجائیں تو فکر کرنے کی ضرورت مجھے نہیں آپ کو ہوگی۔ ذرا سوچیں ،آپ کہاں ہوں گے ؟ ‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
پبلسٹی…!
٭  ایک کنجوس رئیس اپنی زندگی کے آخری ایام میں وصیت نامہ لکھوا رہا تھا ۔ اس نے وکیل سے کہا : اور یہ لکھو کہ میرے ہر اُس ملازم کو جو پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے میرے ہاں کام کررہا ہے اُسے میری جائیداد میں سے پانچ ہزار روپئے دیئے جائیں ۔
جو وکیل وصیت لکھ رہا تھا اُس نے متاثر ہوکر کہا : ’’یہ تو اپ نے کمال ہی کردیا۔ ایسی سخاوت کی مثال اس دور میں مشکل ہی سے ملے گی ‘‘۔
کنجوس دولتمند آدمی نے رازدارانہ لہجے میں کہا ،’’ سخاوت وخاوت کچھ نہیں ہے۔ یہ تو صرف پبلسٹی کیلئے ہے ، ورنہ میرے ہاں کوئی ملازم ایسا نہیں ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے کام کررہا ہو ‘‘۔
محمد امتیاز علی نصرت ؔ ۔ پداپلی
………………………