شیشہ و تیشہ

الطاف شہریار
ڈر لگتا ہے …!
اب مصیبت میں مجھے اپنا یہ گھرلگتاہے
جان آفت میں تو، خطرے میں یہ سرلگتاہے
شیرآجائے مقابل تو کوئی بات نہیں
گائے پیچھے سے گزرجائے تو ڈر لگتاہے
………………………
اقبال شانہؔ
آزادی
ہے انھیں پیٹنے کی آزادی
اور ہمیں چیخنے کی آزادی
جب سے شادی ہوئی ہے بیگم کو
مل گئی ڈاٹنے کی آزادی
بولنے کا بھی حق نہیں ہم کو
اور انھیں کاٹنے کی آزادی
کیسی دعوت ہے یہ بخیلوں کی
ہے فقط سونگھنے کی آزادی
کیا ہو شاعر کا سامعیں کو اگر
ہو گلہ گھوٹنے کی آزادی
انگلیوں پر نچائیے بے شک
دیں مگر ناچنے کی آزادی
باندھ کر پیٹتے ہیں وہ ہم کو
چھین کر ، بھاگنے کی آزادی
لیڈروں کو تو مل گئی شانہؔ
دیش کو لوٹنے کی آزادی
…………………………
آزادی کے لئے …!
٭ ایک شخص وکیل کے پاس بیٹھا ہوا غصے کے عالم میں اس سے کہہ رہا تھا :
’’ تم طلاق دلانے کیلئے پانچ سو روپئے فیس مانگ رہے ہو جبکہ شادی کرنے میں صرف سو روپئے خرچ ہوئے تھے‘‘ ۔
وکیل نے سمجھاتے ہوئے کہا :
’’ لیکن میرے دوست ! آزادی کے لئے ہمیشہ بڑی قربانی دیجاتی ہے ‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
کیسا لگے گا …؟
٭ ایک بار ایک شوہر کو اس کی بیوی نے پوچھا کہ اگر میں چار پانچ دن کے لئے نظر نہ آؤں تو پھر آپ کو کیسا لگے گا ؟
شوہر نے یکدم خوشی سے کہا : ’’اچھا لگے گا ‘‘
پھر …
پیر کو بھی بیوی نظر نہ آئی ،
منگل کو بھی بیوی نظر نہ آئی ،
چہارشنبہ کو بھی بیوی نظر نہ آئی ،
جمعرات کو بھی بیوی نظر نہ آئی ،
اور آخرکار جمعہ کو جب آنکھوں کی سوجن کم ہوئی تو پھر تھوڑی تھوڑی نظر آنے لگی۔
محمد اظہر ۔ ملک پیٹ
…………………………
کہیں دیکھا ہے ؟
٭ ایک بار تین عورتیں بس اسٹاپ پر کھڑی باتیں کررہی تھیں جس کا موضوع تھا ’’کس کا شوہر زیادہ بُھلکڑ ہے ‘‘ ۔
پہلی عورت نے کہا : ’’مرے شوہر تو اس قدر بُھلکڑ ہیں کہ بغیر کھانا کھائے آفس چلے جاتے ہیں اور کھانا لیکر مجھے آفس جانا پڑتا ہے ‘‘۔
دوسری عورت نے کہا : ’’میرے شوہر تو اور بھی زیادہ بھلکڑ ہیں ، فل پائنٹ کے بجائے کبھی کبھی وہ ہاف پائینٹ پہن کر دفتر چلے جاتے ہیں ‘‘ ۔ تیسری عورت جو کافی دیر سے دونوں کی باتیں سن رہی تھیںکہنے لگی : ’’یہ تو کچھ بھی نہیں ! میرے شوہر تو اتنے بھلکڑ ہیں کہ جواب نہیں اُن کا ۔ ایک بار میں کپڑے خریدنے ایک دکان میں گئی ۔ اتنے میں وہ بھی دکان میں آپہنچے ۔ جب میری نظر اُدھر گئی تو وہ مسکرا پڑے ۔ میں بھی مسکرانے لگی ۔ وہ میرے قریب آئے اور کہنے لگے :
’’لگتا ہے بہن جی ! کہیں آپ کو دیکھا ہے ؟‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
پولیٹکس (Politics)
بیٹا (اپنے ٹیچر باپ سے ) :ڈیڈ ! یہ پولیٹکس کیا ہے؟
ٹیچر ( باپ ) : تمہاری ماں گھر چلاتی ہے اُسے حکومت مان لو ، میں کماتا ہوں مجھے وزیر مان لو ، کام والی کام کرتی ہے اُسے مزدور مان لو ، تم اپنے آپ کو ملک کی عوام مان لو ، چھوٹے بھائی کو ملک کا مستقبل مان لو…!
بیٹا : اب مجھے پولیٹکس سمجھ میں آگئی ، ڈیڈ ، کل رات میں نے دیکھا کہ وزیر مزدور کے ساتھ کچن میں گلے مل رہا تھا ، حکومت سو رہی تھی ، عوام کی کسی کو فکر نہیں تھی اور ملک کا مستقبل رو رہا تھا …!
محمد امتیاز علی نصرت ؔ۔ پداپلی، کریمنگر
………………………