شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ
ماہِ صیام رُخصت…!
دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری
بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی
پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں
ماہِ صیام رخصت ، رخصت ہوئے نمازی
……………………………
ڈاکٹر محمد ذبیح اﷲ طلعت ؔ
وعدہ تیرا وعدہ …!
بنا ٹِری گارڈ کے ہی وہ پودے لگارہی ہے
پوسٹروں پر بڑے بڑے دعوے لگارہی ہے
ترقی ریاست کی اس حکومت سے کیا ہوگی طلعتؔ
بھلاکر سبھی وعدے اپنے ہی دھندے لگارہی ہے
………………………
ڈاکٹر قیسیؔ قمرنگری
مزاحیہ غزل
ہیں تو ان ٹوٹل و تھیف
نام ہے کامل شریف
کھاؤ یا نہ کھاؤ بیف
اپنا اپنا ہے بلیف
تیل کیسے ڈالو گے
ناہی بوتل ہے نہ خیف
حال اپنا جانے ہے
بوٹا بوٹا لیف لیف
تم خریطی بھر ہی لو
وہ ربی ہو یا خریف
گھر میں ہیں دو بیگمات
گوکہ خالو ہیں نحیف
قیسیؔ ہیں سنجیدہ پر
شعر ہیں ان کے ظریف
………………………
دُکھ ہوتا ہے …!
٭  ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوا تو وہ بیمہ کمپنی کے دفتر میں اپنے شوہر کے بیمہ کی پالیسی لے کر منیجر کے پاس جاکر بولی : ’’سر ! میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ، اُن کے بیمہ کی رقم دیجئے ‘‘۔
منیجر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ’’اس واقعہ کو سُن کر بہت دُکھ ہوا …!‘‘
عورت غصہ میں بولی : ضرور ہورہا ہوگا ، مردوں کا ہرجگہ یہی حال ہے ، جب بھی کسی عورت کو چار پیسے ملنے کا موقع آتا ہے تو اُنھیں بڑی تکلیف اور دُکھ ہوتا ہے …!!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر۔ نظام آباد
………………………
بھلائی …!
لڑکی ( روتے ہوئے ) ابو ! آج اسکول میں مجھے بہت مار پڑی ، آج سے میں کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کروں گی ؟
والد : وہ کیوں بیٹی ؟
لڑکی : ابو! ہوا یوں کہ کسی بچے نے کرسی پر سیاہی گرادی تھی ، جیسے ہی میڈم اُس کرسی پر بیٹھنے لگیں میں نے سوچا کہ کہیں ان کی ساڑی خراب نہ ہوجائے تو میں نے بھلائی کی نیت سے جھٹ کرسی کھینچ لی ۔ بس اسی بھلائی کی وجہ سے میڈم نے میری جم کر پٹائی کی …!
………………………
یہاں کیا کررہے ہو… ؟
فقیر ( ایک مالک مکان سے ) صاحب ! اﷲ کے نام پر 2 روپئے دیجئے ؟
صاحب : میرے پاس نہیں ہے۔
فقیر : ایک روپیہ دیجئے ؟
صاحب : وہ بھی نہیں ہے ۔
فقیر : آٹھ ؟
صاحب : وہ بھی نہیں ہے ۔
فقیر (ناراض ہوکر) : تو پھر یہاں کیا کررہے ہو چلو میرے ساتھ آؤ…!
سید شمس الدین مغربی۔ ریڈہلز
………………………
مہمان نوازی…!
٭  ایک صاحب کے یہاں تین نوکر تھے ، ایک کا نام کھارا ، دوسرے کا نام باسی اور تیسرے کا نام مہنگا ۔ ایک دفعہ اُن کے یہاں ایک مہمان تشریف لائے ۔ صاحب نے نوکروں سے کہا جلدی سے کھانا تیار کرو ، جب مہمان کھانے کی میز پر بیٹھے تو صاحب نے اپنے نوکر سے کہا :
کھارا … پانی لے آؤ
مہمان : نہیں…! نہیں…! مجھے پیاس نہیں لگ رہی ہے ۔
صاحب نے دوسرے نوکر کو آواز دی :
باسی ! کھانا لے آؤ…
مہمان یہ سن کر پریشانی کے عالم میں میز پر سے اُٹھے اور کہنے لگے ’’مجھے بھوک نہیں ہے میں گھر جارہا ہوں ‘‘۔
صاحب نے پھر تیسرے نوکر سے کہا :
مہنگا ! رکشہ لے آؤ…
یہ لفظ سننا ہی تھا کہ مہمان رفوچکر ہوگئے ۔
امتیاز علی نصرتؔ۔پداپلی
………………………