شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
اندھیر گردی
کچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتنا
کتنا سہما ہوا سا رہتا ہے
دل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا
’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘
……………………………
محمد شفیع مرزا انجم
غزل (طنز و مزاح)
راہ چلتے ہوئے طوفان بھی آجاتے ہیں
حسن ظاہر ہو تو شیطان بھی آجاتے ہیں
بُھولے بھٹکے ہوئے انسان بھی آجاتے ہیں
بن بلائے ہوئے مہمان بھی آجاتے ہیں
نوکری کرنے کی عادت نہیں ہوتی جنکو
ایسے داماد کو پکوان بھی آجاتے ہیں
دورِ حاضر میں امیروں کے وزیروں کیلئے
پیٹ بھرلینے کے سامان بھی آجاتے ہیں
کھڑکیوں پر جو لگاکر نہیں رکھتے پردے
جھانکنے کے لئے شیطان بھی آجاتے ہیں
دھوپ پردیس کی ارمان جلادیتی ہے
ہوکے کچھ لوگ پریشان بھی آجاتے ہیں
بدگمانوں سے ہی اخلاص فنا ہوتا ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی بہتان بھی آجاتے ہیں
صرف معمولی سا بیمار نظر آتے ہی
مشورے دینے کو لقمان بھی آجاتے ہیں
یہ کسی چاہنے والے سے سبق ملتا ہے
خاموشی میں کبھی دربان بھی آجاتے ہیں
شادیاں کورٹ کی ناکام ہوئی جاتی ہیں
روز اخبار میں اعلان بھی آجاتے ہیں
خود سے ہوجاتا ہوں انجمؔ میں بہت شرمندہ
یاد اُس شخص کے احسان بھی آجاتے ہیں
………………………
میرا دیش بدل رہا ہے !
ٹیچر ( اپنے ہونہار طالب علم سے ) : 2+2 کتنے ہوتے ہیں ؟
طالب علم : 9.50
ٹیچر : حقیقت میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟
طالب علم : 2+2=4 + ویاٹ + سرویس ٹیکس + اعلیٰ تعلیم سیس + سوچھ بھارت سیس + کرشی کلیان سیس وغیرہ سب ملاکر 9.50 ہوتے ہیں …!!
ذہین و ہونہار طالب کا یہ جواب سن کر ٹیچر غش کھاکر گر پڑی اور طالب علم نے کہا ’’میرا دیش بدل رہا ہے ! آگے بڑھ رہا ہے ‘‘
محمد حاجی ۔ حیدرآباد
………………………
خواہش …!
٭  پرانے زمانے میں ایک ملک میں سکون ہی سکون تھا ، راجہ کے پاس کوئی بھی کسی قسم کی شکایت کرنے نہیں آتا تھا مگر راجہ کو یہ خواہش تھی کہ کوئی شکایت کرنے آئے ۔ آخر اس نے وزیر سے مشورہ کیا تو وزیر نے مشورہ دیا کہ جو آدمی بھی اپنے کام پر جائے اس سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ چنانچہ راجہ نے ہر آدمی پر ٹیکس لگانے کے احکاما ت جاری کئے ۔ تب بھی کوئی شکایت کو نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے ٹیکس کی رقم میں 10 فیصد اضافہ کیا تو بھی کوئی شکایت کرنے نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے وزیر کے مشورہ پر یہ احکامات جاری کئے کہ جو بھی آدمی اپنے کام سے جائے اسے تین تین جوتے رسید کئے جائیں۔ لوگ جوتے کھاتے ہوئے خوشی خوشی اپنے اپنے کام پر جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد آخرکار راجہ کے پاس شکایت لیکر کچھ لوگ آگئے تو راجہ کو بہت خوشی ہوئی اور ان سے پوچھا کہ کیا شکایت لے کر  آئے ہو …؟
لوگوں نے جواب دیا ، جناب عالی ! ہمیں اپنے کام پر جانے میں دیری ہورہی ہے ، ہماری تعداد زیادہ ہے اور جوتے مارنے والوں کی تعداد کم ہے ۔ اسی لئے یہ درخواست لیکر آئے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھادی جائے تاکہ ہمیں لمبی لمبی لائین میں ٹہرکر وقت خراب کرنے کی نوبت نہ آئے اور ہمیں وقت پر اپنے اپنے کام پر جانے میں سہولت ہو ۔
سید آدِب علی۔ رامیا باؤلی ، محبوب نگر
………………………
کم از کم …!
٭  مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فرازؔ عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوے محسن سے کہا : ’’یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل دیجئے‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………