شیشہ و تیشہ

شیخ احمد ضیاءؔ
عید آئی ہے
عید کا جشن مناؤ کہ عید آئی ہے
غم کے ماروں کو ہنساؤکہ عید آئی ہے
ہاتھ میں ہاتھ ملانا تھا دکھاوا بھائی
دل سے اب دل کو ملاؤ کہ عید آئی ہے
دودھ میں پانی ملانے کی روایت ہے قدیم
دودھ پانی میں ملاؤ کہ عید آئی ہے
ہے ابھی تک بھی سلامی کا چلن گاؤں میں
تم بھی سسرال کو ہو آؤ کہ عید آئی ہے
اک برس بیت گیا تم کو نہائے شاید
آج جی بھر کے نہاؤ کہ عید آئی ہے
ایک روزہ رکھا افطار کئے پورے تیس
اُس کی گلپوشی کراؤ کہ عید آئی ہے
میں نے بیگم سے کہا آج بھی غصہ کیسا
شیرخورمہ ہی پلاؤ کہ عید آئی ہے
اُس کی تعریف کرو جتنی بھی کم ہی ہے ضیاءؔ
اک غزل اُس کو سناؤ کہ عید آئی ہے
………………………
کیا جلدی تھی …!
٭  قبرستان میں ایک صاحب ایک قبر پر پہنچے اور قبر سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ جملہ کہتے جاتے:’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی‘‘۔
انکی آہ و بکا سن کر دیگر لوگ متوجہ ہوگئے اور انکے غم میں شریک ہونے کے لئے ان کے قریب پہنچے۔
وہ صاحب ابھی بھی قبر کی مٹی اٹھا کر آنکھوں سے لگاتے۔ اپنے سر میں ڈالتے۔ سر پیٹتے اور روتے چلاّتے یہی کہتے جاتے۔
’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی … تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی…‘‘
لوگوں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا
’’ دیکھیے جناب۔ مرنے والوں کا سب کو دکھ ہوتاہے۔ لیکن یہ آخر کون ہے جس کے غم میں آپ یوں نڈھال ہوئے جارہے ہیں؟
آپکے بیٹے، والد، بہن بھائی یا … کوئی اور…؟؟؟‘‘
ان صاحب نے ہچکیوں کے درمیاں لوگوں کو بتایا: ’’یہ میری بیوی کے پہلے شوہر کی قبر ہے ‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
ان ہی شرائط پر …!
٭  ایک شخص پھٹا پُرانا سوٹ پہنے ایک درزی کی دُکان پر آیا اور بولا :
’’کیا یہ صحیح ہے کہ میرے بیٹے نے تین سال پہلے ایک سوٹ سلوایا تھا اور اُجرت آج تک ادا نہ کی‘‘۔
درزی کا چہرہ کھل اُٹھا ، اس نے کہا جی ہاں ! آپ نے صحیح کہا ۔ کیا وہ بل آپ ادا کرنے آئے ہیں…؟
اُس شخص نے جواب دیا : ’’نہیں بھئی ! دراصل ان ہی شرائط پر میں ایک اور سوٹ سلوانا چاہتا ہوں ‘‘۔
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ ، کوہیر
………………………
خون کا اثر …!
٭  ایک مالدار شخص کو خون کی ضرورت پڑی تو اتفاقاً ایک کنجوس شخص نے اُسے خون دیا ۔ مالدار شخص نے خون کا عطیہ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے تحفہ میں کار دی! ۔
دوسری دفعہ پھر سے مالدار شخص کو خون کی ضرورت پری تو وہی کنجوس شخص دوڑا دوڑا پہونچا اور اُسے خون دیا ۔
اس بار مالدار شخص نے خون کا عطیہ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دو لڈو دیئے ۔ لڈو پاکر کنجوس شخص کے چہرے پر مایوسی دوڑ گئی تو مالدار شخص نے کہا : ’’مایوس مت ہو ، یہ تمہارے ہی خون کا اثر ہے…!‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
………………………
دیکھوں گا کیسے ؟
٭  جج نے ملزم کو سزاء سناتے ہوئے کہا کہ اس کے دونوں کان کاٹ دیئے جائیں ۔
ملزم گڑگڑاکر کہنے لگا : ’’جج صاحب ! ایسا نہ کیجئے ، میں اندھا ہوجاؤں گا ‘‘ ۔
جج نے پریشان ہوکر ملزم سے دریافت کیا وہ کیسے؟
تو ملزم نے کہا : ’’کان کٹ گئے تو پھر میں چشمہ کہاں لگاؤں گا ‘‘۔
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………