شیشہ و تیشہ

طالب خوندمیری
اب دیکھیے جناب !
اِک بدنصیب ، اپنے پُرآشوب گاؤں سے
کل شب ، صحافیوں سے یہ کہہ کر نکل گیا
’’چولھا نہیں جلا تھا کئی روز سے مِرا
اب دیکھیے جناب ! مرا گھر بھی جل گیا‘‘
………………………
انورؔ مسعود
قیس و لیلیٰ
قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن
عشق بازی کے لئے دشت کو اپناتے تھے
ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں
وہ سمجھدار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے
……………………………
گٹر سے بھی !
مجھے گر منتخب کر لو گے بھائی
پنپنے کی نہیں کوئی برائی
مجھے کہنا کہ ناقص ہے صفائی
گٹر سے بھی اگر خوشبو نہ آئی
……………………………
مزاحیہ غزل
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصول ادھار ہوتا
‘‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘
کہا میں نے میںہوںٹیچر تو نکاح مجھ سے کرلے
کہا اس نے کر ہی لیتی جو تو تھانے دار ہوتا
تیری ویزا لاٹری کو یہ سمجھ کے جھوٹ جانا
’’کہ خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘
یہ کہاں کا امتحاں ہے کہ سبھی ممتحن ہیں ناصح
’’کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا‘‘
جو ہماری ڈیڈ باڈی کہیں چیل کوے کھاتے
‘‘نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘
غم عشق ہی بھلا ہے کہ بلا کا ہوں نکھٹو
’’غم عشق اگر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا‘‘
تیرا ناز تیرا عاصیؔ بڑے شوق سے اٹھاتا
جو یہ ہر مہینے جاناں فقط ایک بار ہوتا
……………………………
شیخی خور…!
٭   کبوتر کا ایک جوڑا  فضا میں اڑ رہا تھا نر نے اپنی مادہ سے کہا… ’’تم کیا جانو کہ مجھ میں کتنی طاقت ہے… ؟ اگر میں چاہوں تو اپنے پروں کے ایک ہی وار سے سامنے کی پوری عمارت گرادوں… !‘‘
اتفاق سے اسی عمارت کی چھت پر کھڑا ہوا آدمی پرندوں کی بولی جانتا تھا… اس نے کبوتر کو اشارے سے بلایا اور کہا … !
’’کیوں میاں … ! یہ شیخی کیوں بھگار رہے ہوں …؟‘‘
کبوتر نے فوراکہا… ’’معاف کیجئے جناب …! میں تو صرف اپنی کبوتری پر رعب جما رہا تھا …  ورنہ میں کیا اور میری طاقت کیا… ؟‘‘
آدمی نے کہا… ’’خبردار ! آئندہ ایسا رعب ہر گز نہ جمانا یہ بہت بری بات ہے !‘‘
کبوتر واپس آیا …تو کبوتری نے پوچھا … ’’وہ آدمی تم سے کیا کہہ رہا تھا … ‘‘
کبوتر نے جواب دیا…
’’ تم نے دیکھا نہیں کہ وہ آدمی ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا تھاکہ خدا کیلئے میری عمارت نہ گرانا !‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
بیوقوف کون ؟
٭  ایک شوہر بڑی ہی مشقت کے ساتھ اپنی بیوی کو انگریزی بات چیت سکھارہے تھے ۔ اس دوران دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو محترمہ نے شوہر سے کہا ’’چلیں ڈنر کرلیں!‘‘
شوہر نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ’’تمہیں کب سے میں بات چیت میں ماہر کرنا چاہ رہا ہوں اور تم ہے کہ وہی بیوقوفوں کی طرح باتیں کررہی ہوں ، دوپہر کے کھانے کو ’ڈنر‘ نہیں ’’لنچ ‘‘ کہتے ہیں ۔ بیوی نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ’’بیوقوفوں کی طرح میں باتیں نہیں کررہی ہوں آپ سمجھ نہیں رہے ہیں ، رات کا بچا ہوا کھانا ہے اس لئے میں اسے ’’ڈنر ‘‘ کہہ رہی ہوں !
محمد ندیم ۔ یاقوت پورہ
………………………
اتنی جلدی !
٭ دو دوست ایک ہوٹل میں بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ ایک بولا ’’میں اور میری بیوی ایک دن اس کنوئیں کی منڈیر پر کھڑے ہوگئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ لوگوں کے من کی مراد پوری کرتا ہے ۔ پہلے شوہر نے ایک سکہّ ڈالا اور کنویں میں جھانک کر من ہی من کچھ مانگا ۔ پھر بیوی نے سکہ ڈالا اور کنویں میں جھانکنے کیلئے جھکی ۔ لیکن اچانک توازن بگڑنے کی وجہ سے وہ کنویں میں جاگری اور ڈوب گئی ۔ شوہر بڑبڑایا ۔ یا خدا ۔ میں اب تک ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا ۔ مجھے یقین تو کیا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا میری دعا اتنی جلدی قبول ہوگی ۔
قیوم ۔ کرلوسکر
…………………………