شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود
سرِ راہے
اک عطائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اْس تقریر کا
بات کیا بانگِ درا میں شیخ سعدی نے کہی!
’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا ‘‘
……………………………
چچا ؔپالموری
بچہ کس کا …؟
دادا پُھول تو پوتا گُچّھا
مُکھ مکھڑے کا ہے مشٹنڈا
دل ہے ملائم گرم کلیجہ
بولے جھوٹ لگے ہے سچّا
غٹ غٹ پی لیتا ہے کچّا
چچّاؔ پوچھے بچّہ کس کا ؟
بچّہ کس کا ؟ شیر کا بچہ !
پینے بیٹھا رُکنے کا نئیں
جوے میں بھی تھکنے کا نئیں
جاگا تو کچھ کرنے کا نئیں
سویا تو پھر اُٹھنے کا نئیں
ہم نے پوچھا بچّہ کس کا ؟
بچّہ کس کا ؟ شیر کا بچہ !
ایسا چیخا پھٹ کے چندیاں
گھور کے دیکھا پھٹ کے چندیاں
گرکے نہ اُٹھا پھٹ کے چندیاں
واہ رے گڑمبا پھٹ کے چندیاں
کسی کی گُڑگی کسی کی چڈّی
کسی کی آنکھیں کسی کی سانسیں
کسی کی زیادہ کسی کی کم کم
اپنا عالم پھٹ کے چندیاں
ایک اور بیوڑا پاس کھڑا تھا
اُس سے کسی نے بڑھ کر پوچھا
بھیّا یہ ہے بچہّ کس کا ؟
وہ اکڑا اور پھر لہرایا
تاؤ موچھوں پر دے کر بولا
بچّہ کس کا ؟ شیر کا بچّہ !
شیر کا بچّہ ! شیر کا بچّہ !
آپ نے کیسی رٹ یہ لگائی
آپ کا نطفہ آپ کا بچّہ
یہ تو بس انسان ہے بھائی
پہلے سوچو پھر منہ کھولو
کچھ بھی بولو پہلے تولو
………………………
ضرور ایسا ہی کرتا …!
٭  ایک مزدور پر راستے میں کتے نے حملہ کردیا جسے اُس نے اپنی کلھاڑی سے ختم کردیا ۔ کُتے کے مالک نے عدالت میں اُس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ۔ عدالت میں جج نے اُس سے پوچھا کہ اگر کُتا تم پر حملہ کررہا تھا تو تم کلہاڑی کی لکڑی سے مارکر بھگاسکتے تھے ، کلہاڑی کے سامنے کے حصہ سے کیوں مارا ؟
تو مزدور نے جواب دیا : ’’ضرور ویسا ہی کرتا اگر کُتا دُم کی طرف سے کاٹنے کیلئے آتا ‘‘۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
اتنا چھوٹا …!
٭  مہنگائی نے زندگی کے ہر شعبہ پر اپنا اثر ڈال دیا ہے ۔ تور کی دال ، ٹماٹر ،پیاز اور دیگر چیزوں نے عام آدمی کی زندگی کس طرح متاثر کی ہے دیکھئے …!
شوہر :  بیگم کیا جی ! اتنا چھوٹا آملیٹ
بیوی: ہوجی ! پیاز کہاں ہے ؟
محمد فصیح الدین۔ کاماریڈی
………………………
کتنے پیسے ہوں گے ؟
مریض ڈاکٹر سے : ڈاکٹر صاحب ! مجھے پلاسٹک سرجری کرانا ہے کتنے پیسے ہوں گے ؟
ڈاکٹر : صرف بیس ہزار 20,000/- روپئے
مریض : ڈاکٹر صاحب ! اگر پلاسٹک میں لادوں تو …؟
ڈاکٹر : تو پھر گرم کرکے بھی تم ہی چپکالو …!
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
………………………
بدتمیز…!
٭  ماہر تحریر کے پاس ایک بوڑھی عورت کسی بچے کی تحریر لائی ۔ ماہر تحریر نے غور سے اس تحریر کو دیکھنے کے بعد کہا
’’محترمہ ! شائد آپ اس بچے کی ماں ہیں ، مگر میں صاف کہہ دیتا ہوں کہ یہ بچہ انتہائی فضول خرچ اور بدتمیز ہے ۔ بڑا ہوکر یہ کوئی اچھا کام نہ کرسکے گا ‘‘۔
اس پر بوڑھی عورت بولی ’’مگر یہ تو تمہارے بچپن کی تحریر ہے اور شاید تم بھول گئے ہوکہ میں تمہیں پڑھایا کرتی تھی ‘‘۔
سید احمد خان ۔ ہمایوں نگر
………………………