شیشہ و تیشہ

حسن قادری
بیگم نامہ…!
تنخواہ ساری بیگم کے ہاتھوں تھمادیتا ہوں
جو جو خرچ کیا سچ سچ بتا دیتا ہوں
جب کبھی بیگم کا پارہ حد سے زیادہ گرم ہو
سب سے پہلے جو تیاں اس کی چھپا دیتا ہوں
………………………
ساری رسمیں ہیں دنیا کو دکھانے کیلئے ورنہ
کون رو تا ہے حسنؔ بیگم کی موت پر
………………………
سید اعجاز احمد اعجازؔ
جیت توں کی ہار توں کی …!!
الیکشن میں کھڑا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
نوٹاں نہیں دیا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
کوئی پارٹی نے مجھ کو دیا تو نہیں ٹکٹ
آزاد لڑ رہا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
ساس میری کھڑی ہے میرے ہی اب مخالف
ہمت تو کررہا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
بیوی کے سوا سب کی تائید مجھ کو حاصل
حیرت میں پڑگیا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
جیتا تو سڑکوں کو میں آئینہ بنادوں گا
وعدہ تو کیا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
وعدہ تحفظات کا کرتا تو نہیں لیکن
ووٹاں تو مانگتا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
اعجازؔ الیکشن تو نہیں کام شریفاں کا
طوفان سے لڑ رہا ہوں جیت توں کی ہارتوں کی
………………………
جمہوریت اور یقین !
٭ ہمارے ایک دوست کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے 1996 ء ہی میں اُٹھ گیا تھا۔کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر؟
ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔
بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔
جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی کی ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی۔ ہنسی بمشکل دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔
میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں منہ تکتا رہ گیا۔
بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند اور اندھیرے کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام سو رہی ہوتی ہے ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
جمہوریت…!
٭ والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں ہر فیصلہ جمہوریت کے اُصولوں پر کرنا چاہئے ، ہمیں جمہوریت کا ہر فیصلہ منظور ہے وغیرہ ۔
لیکن ہوتا یہ تھا کہ ہر فیصلہ اماں کرتی تھیں۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ ابا پیار سے ( یا خوف سے) اماں کو جمہوریت کہتے تھے ۔
نجیب احمد نجیبؔ
………………………
سزا …!
٭ شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا ہوگیا تو بیوی نے اپنی ماں کو فون کیا اور کہا : ’’میرا اُن سے جھگڑا ہوگیا ہے ۔ میں تین چار مہینے کے لئے آپ کے پاس آرہی ہوں ‘‘۔
ماں : ’’جھگڑا اُس کمبخت نے کیا ہے ! سزا بھی اُسے ہی ملنی چاہئے …! ۔ تو رُک بیٹی میں آتی ہوں پانچ چھ مہینے کے لئے …!!
محمد امتیاز علی نصرت ۔ پداپلی ، کریمنگر
………………………
دھوکہ !!
٭ ٹیچر ( کاپی دیکھ کر ) یہ تحریر تمہاری نہیں ہوسکتی ، ضرور تمہارے بھائی نے لکھا ہے ۔
امتیاز نہیں جناب ! بات یہ ہے کہ میں نے ہی اپنے بھائی کے پین سے لکھا ہے ۔ اس لئے دھوکا ہورہا ہے ۔
سیدہ ریشماں کوثر ۔ دیورکنڈہ
………………………