شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ
مزاحیہ غزل
حکومت نے چلی ہے چال پھر سے
بہت مہنگی ہوئی ہے دال پھر سے
’’جو اچھے دن تھے وہ بھی جاچکے ہیں‘‘
بُرا ہے جنتا کا یہ حال پھر سے
گھٹالوں پر گھٹالے ہورہے ہیں
سیاست داں لُوٹے مال پھر سے
طمانچہ مارا ہے حزب مخالف
حکومت کا مِلا ہے گال پھر سے
کئے جاتا ہے وہ وعدوں پہ وعدے
گلے نہ موذی کی یہ دال پھر سے
پدھاریں ساس میری میرے گھر کو
چلے آیا ہے اک بھونچال پھر سے
نچانے لگ گئی سالی بھی مجھ کو
اداوں کی بجاکے تال پھر سے
رواداری کی پردے پھاڑ کے اب
نکالے بال کی وہ کھال پھر سے
مرے بٹوے پہ نظروں کو جما کو
بچھاریں دل کا وہ اک جال پھر سے
میرے پیسوں سے لوگاں جلسے کرکو
اُڑاریں دیکھو صادقؔ شال پھر سے
………………………
گالی کسے کہتے ہیں ؟
٭  ایک معروف اردو داں ٹیچر نے ادبی کلاس لیتے ہوئے ایک شاگرد سے جو اردو الفاظ کا بہتر استعمال کرتا تھا اُس سے دریافت کیا : ’’ بتاؤ عرفان ! گالی کسے کہتے ہیں؟‘‘
عرفان : انتہائی غصہ کی حالت میں جسمانی طور پر،تشدد نہ کرتے ہوئے ، زبانی طور سے کی جانے والی پر تشدد کارروائی کے منتخب الفاظ کے مجموعہ کو گالی کہا جاتا ہے ۔ جس کی ادائیگی کے بعد اطمینان  وسکون کی ناقابل بیان کیفیت سے قلب بہرہ ور ہو جاتا ہے ۔ ان تیر و نشتر سے بھرے الفاظ کے مجموعہ کو عوام الناس ’’ گالی ‘‘کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔
’’گالی ‘‘ کی اتنی ادبی تشریح سننا ہی تھا کہ استاد محترم چکراکر کرسی پر بیٹھ گئے …!
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
تمہیں معلوم ہے …؟
٭  ایک مشہور و معروف ڈاکٹر کے گھر کی گھنٹی رات کے 2 بجے مسلسل بجنے لگی ۔ چاروناچار ڈاکٹر صاحب نے بڑی مشکل سے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک مریض کھڑا ہے اور درد کی شدت سے کراہ رہا ہے ۔ مریض نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا کراہتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’ڈاکٹر صاحب ! ڈاکٹر صاحب ! مجھے کتے نے کاٹ لیاہے ‘‘ ۔
ڈاکٹر صاحب نے ناگواری کے اندازمیں غصے سے کہا ’’تمیں معلوم ہے اس وقت رات کے کتنے بج رہے ہیں ؟ ‘‘
تو مریض نے معصومیت سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! مجھے تو معلوم ہے لیکن کتے کو نہیں معلوم تھا …!‘‘
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
تنخواہ بڑھ گئی ہے ؟
نوکرانی : مالکن لگتا ہے کہ مالک کی ترقی ہوئی ہے اور تنخواہ بھی کافی بڑھ گئی ہے ؟
مالکن : تجھے ایسا کیوں لگتا ہے ؟
نوکرانی : کل شام دفتر سے آتے وقت مالک اپنے ساتھ دس کیلو تورّ کی دال اور دس کیلو پیاز جو لائے ہیں …!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر۔ نظام آباد
………………………
تُرکی بہ تُرکی !
٭  ایک چچا گدھے کا کان پکڑ کر لے جارہے تھے ۔ ایک لڑکا پُکار کے کہا : چچا ! گدھے کو کہاں لے جارہے ہو ؟
چچا نے کہا : کیوں تمہیں کیا تکلیف ہے ۔
یہ سُن کر لڑکے نے کہا : ’’آپ خاموش رہو چچا میں گدھے کو بول رہاہوں ‘‘۔
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیرواڑہ ، کوہیر
………………………
کنجوس …!
استاد: آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کنجوس کسے کہتے ہیں ؟
شاگرد : جو 100 ایس ایم ایس کرنے پر بھی جواب نہ دے۔
استاد : شاباش ! اسے ایک مثال دیکر سمجھاؤ
شاگرد : آپ کی بیٹی…!
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………