شیشہ و تیشہ

قطب الدین قطبؔ
من کی بات…!
جنتا کو اظہارِ خیالات کرنے دو
عادت ہے ان کی سوالات کرنے دو
میں نے رکھ لی ہے روئی کانوں میں
مجھے بس اپنے من کی بات کرنے دو
………………………
ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادق ؔ
مزاحیہ غزل
مجھے دال روٹی سُنو وہ کھلاتیں
مٹن پو مسالہ چھنک کو وہ کھاتیں
عجب ہے تماشہ یہ بیگم کا دیکھو
مری تنخواہ لے کر مجھے ہی سُکھاتیں
اُنو جو بھی بولے میں سنُنا کتے سب
ذرا کچھ بھی بولوں تو انکھیاں دکھاتیں
پڑوسن کے تالے کی چابی ہوئی گُم
مری بیگم مجھ پہ ہی شک کو گھماتیں
حسینوں کو کیا ہوگیا کی بی پاشاہ
ذرا مسکرایا تو آنکھاں دِکھاتیں
یہ پولیس کی ہے یا کہ چوروں کی ٹولی
ملا مال جو بھی وہ جیبوں میں ڈالتیں
سُنو کالی دُلھن ملی تو مری جاں
اُسے اُجلی سیرت کی اماں بتاتیں
ذرا دل کو قابو میں رکھنا بھی صادقؔ
پڑوسن تمہاری یہ کھڑکی پو آتیں
………………………
پاگل …!
٭ پاگل خانے میں برسہا برس گذارنے کے بعد ایک پاگل کو اسکے اطمینان بخش رویے کے باعث اُسے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے میڈیکل آفیسر نے اس پاگل کو اپنے آفس بلایا اور بتایا کہ میڈیکل بورڈ اسے گھر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ گھر واپس جا کر تم زندگی کیسے گذارو گے ؟
’’ ڈاکٹر صاحب!‘‘ پاگل نے سنجیدگی سے بولنا شروع کیا : ’’ مجھے اپنی نارمل زندگی میں جانے کی بہت خوشی ہوگی۔ میں کوشش کروںگا کہ سابقہ غلطیوں سے درگذر کروں۔ دراصل میں ایٹمی سائنسدان تھا اور بہت زیادہ کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی وجہ سے اور دن رات اسی کام میںلگا رہنے کی وجہ سے میں پاگل خانے پہنچا تھا۔ لیکن اب میں واپس جا کر پریکٹیکل ہتھیار بنانے کی بجائے صرف تھیوری پر کام کروں گا۔ مجھے امید ہے اس سے مجھ پر ذہنی دباؤ کافی کم ہوگا۔
’’ ویری گڈ‘‘
ڈاکٹر نے ستائش آمیز لہجے میں کہا۔
اور پاگل نے بات جاری رکھی: ’’ اگر تھیوری ورک سے بھی مجھے کچھ کوفت محسوس ہوئی تو پھر میں ایٹامک سائنسز میں پروفیسر شپ شروع کردوں گا۔ امید ہے کہ اس سے میرے ضمیر کو بھی اطمینان ملے گا کیونکہ میں اپنے وطن کے لیے سائنسدانوں کی پوری نسل تیار کر سکوںگا‘‘۔
’’ بہت شاندار آئیڈیا ہے‘‘ ڈاکٹر بہت ہی خوش ہو رہا تھا۔
’’ اگر کسی وجہ سے اوپر والے تینوں آپشنز میں سے کسی پر بھی کام نہ کر سکا۔ تو پھر میں گھر بیٹھ کر اپنی زندگی کے تجربے پر کتاب لکھوں گا۔ مجھے امید ہے کہ میرے ملک اور آئندہ نسلوں کے لیے ایٹامک سائنسز کی دنیا میں ایک عظیم خزانہ ثابت ہوگی‘‘۔
’’ واؤ۔ ایکسلینٹ۔ ہمارے وطن کو واقعی ایسے انٹیلیکچوئیلز کی بہت ضرورت ہے‘‘ ڈاکٹر اٹھ کر پاگل کو عزت و احترام سے گلے لگانے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ پاگل نے اسی وقت ایک اور جملہ بولا: ’’ اور ڈاکٹر صاحب ! اگر اوپر والے سارے راستوں میں سے کوئی بھی راستہ اختیار نہ کرسکا تو پھر میں واپس ریلوے سٹیشن پر پان سگریٹ والا کھوکھا دوبارہ شروع کردوں گا۔”
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
آہستہ بولو…!
٭ گاہک مرغی کی دوکان پر : ارے بھائی ! ایک مرغی لیکر اُس کا چمڑہ نکال دو ، گوشت سے ہڈیاں بھی الگ کردو اور گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ذرا جلدی دیدو مجھے ہریس بنانا ہے ۔
دوکاندار : بھائی صاحب ! آپ یہ بات تھوڑا آہستہ بھی کہہ سکتے تھے نا ! دیکھو سامنے کی جالی میں رکھا ہوا مرغا کیسا غصے کی نظروں سے تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
سالم جابری ۔ آرمور
………………………