شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی
پہچان !
کبھی دروازے پہ دادی ، کبھی نانی آئی
مجھ کو گھنٹی نہ سلیقے سے بجانی آئی
اس کو بلوانا پڑا اس کی سہیلی سے مجھے
کام جب آئی پہچان پرانی آئی
………………………
ٹپیکلؔ جگتیالی
غزل (مزاحیہ )
دعوت میں بن بلائے گُھسا کیا بُرا کیا
بے شرم بے حیا سا جیا کیا بُرا کیا
سُسرے بھی اپنی شادی میں دس لاکھ لئے تھے
اُس میں سے تھوڑے میں بھی لیا کیا بُرا کیا
معلوم ہی نہ تھا مجھے کیا چیز ہے شراب
پپّا پیئے تو میں بھی پیا کیا بُرا کیا
لُچّے سے نوٹ لیکے الیکشن میں دوستو
اچھے کو میں نے ووٹ دیا کیا بُرا کیا
غزلیں سنانے ایک گویّا بھی آگیا
محفل کو اُس نے لوٹ لیا کیا بُرا کیا
ہر بات پہ مری وہ ٹپیکلؔ کہے مجھے
مُنہ پر ہی اُن کے بول دیا کیا بُرا کیا
………………………
… بات تو سننے دو !
٭ ایک صاحب گھبرائے ہوئے گھر آئے ، بیوی سے بولے : ’’ بیگم میں دفتر سے آرہا تھا راستے میں ایک گدھا…‘‘ اتنے میں ان کی ایک بچی بول اُٹھی: ’’ امی کسی نے میری گڑیا توڑ دی‘‘۔
بیوی نے کہا : اچھا بیٹی ہم تمہیں دوسری گڑیا لادیں گے۔‘‘
شوہر نے پھر کہنا شروع کیا:’’ ہاں، تو بیگم میں کہہ رہا تھا کہ راستے میں ایک گدھا …‘‘ اتنے میں ان کا ایک لڑکا بول اُٹھا ’’ امی ! گڈو نے مجھے مارا ہے۔‘‘
بیوی جھلا کر بولی ’’ تم لوگ چُپ ہوجاؤ، مجھے گدھے کی بات سننے دو۔‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
……………………………
سمجھ تو !!
٭ ایک شخص کے پڑوس میں ایک پالتو اور شریر طوطا تھا ۔ جب بھی وہ شخص کسی کام سے پڑوسی کے گھر کے قریب سے گذرتا طوطا اُس کو گالیوں سے نوازنا شروع کردیتا ۔ وہ آدمی طوطے کی اس حرکت کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جایا کرتا تھا ۔ ایک دن طوطے نے پھر ایک بار گالیاں بکنی شروع کی تو اُس شخص کی برداشت جواب دے گئی اور اُس نے جاکر اس کے مالک سے شکایت کردی ۔ جس پر مالک نے طوطے کی زبردست کھینچائی کی ۔ اگلے دن وہ آدمی جب وہیں سے گزرتا ہے تو طوطا اس کو دیکھ کر گالیاں نہیں بکتا لیکن صرف اتنا کہتا ہے :
’’سمجھ تو گئے ہو گے تم‘‘
مرزا احمد بیگ ۔ ممتاز باغ
………………………
کمزور دل !!
٭ ایک سیاح کی کار کی زد میں ایک کُتا آگیا اور چند لمحوں میں دم توڑ گیا ۔ سیاح کو بہت افسوس ہوا اتنے میں ایک عورت آنکھوں میں آنسو لئے اس کی طرف بڑھی اور بولی یہ میرے شوہر کا کتا تھا میرے شوہر اسے بہت چاہتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اتنا اچھا شکاری کتا دور دور تک نہیں ملے گا ۔ سیاح نے کہا مجھے بہت دکھ ہوا ہے ۔ محترمہ آپ کے شوہر کہاں ہیں ؟ میرا خیال ہے مجھے خود ہی ان سے مل کر انہیں کتے کی موت کی خبر دینا چاہئے ۔ عورت نے کہا ’’وہ اُدھر گلی میں لکڑیاں چیر رہے ہیں مگر میں نہیں چاہتی کہ آپ اچانک یہ خبر سُناکر ان کے دل کو دھچکا پہنچائیں۔ ان کا دل ویسے ہی کمزور ہے اس لئے آپ ایک دم کتے کا ذکر نہ کریں بلکہ پہلے یہ بتائیں کہ میں چل بسی ہوں!‘‘ ۔
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
………………………
نہیں ملے گی !؟
ایک ملازم اپنے باس سے : مجھے بیوی کا ہاتھ بٹانا ہے چھٹی چاہئے ۔
باس : نہیں ملے گی !
ملازم : شکریہ ! جانتا تھا مصیبت کے وقت آپ ہی میری مدد کریں گے !۔
………………………
حیرت ہے !!
پروفیسر طالب علم سے : آج پہلی بار تم کلاس میں باتیں کررہے ہو ! تم تو ہمیشہ کلاس میں سر جھکاکر میرا لکچر سنا کرتے تھے ؟
طالب علم : سر آج میرا SMS پیاکیج ختم ہوگیا ہے !
اکمل نواب خیردی ۔ گلبرگہ
………………………