شیشہ و تیشہ

قطب الدین قطبؔ
اُردو کا المیہ …!
اُردو کو ملا سرکاری زبان کا درجہ
سارے شہر میں ہے اس بات کا چرچہ
مسئلہ یہ درپیش ہے ہم اُردو سکھائیں کس کو
انگریزی میں اُردو پڑھتا ہے اُردو کا ہر بچہ
………………………
شاہدؔ عدیلی
غزل (طنز و مزاح)
روز سُن سُن کے شاعری مجھ سے
اہلیہ باغی ہوگئی مجھ سے
جھاڑو برتن بھی پیر بھی دابوں
ایسی ہوگی نہ شوہری مجھ سے
پان سگریٹ اور گٹکھے نے
چھین لی میری دلکشی مجھ سے
جب سے شادی شدہ ہوا ہوں میں
دُور رہتی ہے شانتی مجھ سے
دُکھتی رگ جب سے میں نے پکڑی ہے
خار کھاتا ہے مولوی مجھ سے
زندہ رکھوں گی میں تو اُردو کو
ڈٹ کے کہتی ہے شاعری مجھ سے
میں اگر ہوں تو میرا ’’میں‘‘ کیا ہے
پوچھتا ہے یہ فلسفی مجھ سے
کاٹنے دوڑتے ہیں وہ شاہدؔ
سن کے گانا کلاسیکی مجھ سے
………………………
بہترین ترکیب …!
٭ ایک شخص اپنے ملنے جلنے والوں سے بہت تنگ تھا مگر انھیں آنے سے روک بھی نہیں سکتا تھا ۔ وہ ایک بزرگ کے پاس گیا اور اپنی اُلجھن کا حل دریافت کیا۔ بزرگ نے کہا جو لوگ تم سے ملنے آئیں ان میں سے غریب اور نادار اگر قرض طلب کریں تو دیدو اور وعدہ لے لو کہ وہ وقت مقررہ پر قرض واپس کردیں گے ۔ جو امیر لوگ ہوں ان سے بھاری رقم بطور قرض مانگنے لگو ، وہ تمہارے پاس آنا ہی چھوڑ دیں گے …!!
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………
سوز و ساز…!
٭ تلوک چند محرومؔ حفیظ جالندھری سے ملاقات کے لئے انارکلی بازار پہونچے جہاں کی ایک عمارت کی بالائی منزل میں حفیظ جالندھری کے ماہانہ رسالہ ’’سوز و ساز‘‘ کا دفتر واقع تھا ، لیکن جب محرومؔ وہاں پہونچے تو حفیظ جالندھری سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ چنانچہ انھوں نے فی البدیہہ ایک قطعہ کہہ کر حفیظ جالندھری کی میز پر رکھا اور واپس ہوگئے ؎
دفتر جو بالا خانے پہ دیکھا حفیظ ؔکا
محرومؔ سچ تو یہ ہے کہ دل شاد ہوگیا
رونق ہو انارکلی کی چہارچند
بازار سوز و ساز سے آباد ہوگیا
انارکلی بازار لاہور طوائفوں کا محلہ تھا جس میں دن رات طبلہ اور سارنگی کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، اسی مناسبت سے رسالہ کا نام ’’سوز و ساز ‘‘ اس قطعہ میں مزاح پیدا کرگیا۔
عبدالقدیر عزمؔ۔حیدرآباد
………………………
وہ بھی تو !
٭ اخبار ’’وطن‘‘ کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان کے علامہ اقبال سے دوستانہ تعلقات تھے، اور وہ علامہ کی اس دور کی قیام گاہ واقع انار کلی بازار لاہور اکثر حاضر ہوا کرتے تھے، اس دور میں انارکلی بازار میں گانے والیاں آباد تھیں۔ انہی دنوں میونسپل کمیٹی نے گانے والیوں کو انارکلی سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کر دیا۔ان ایام میں جب بھی مولوی صاحب، علامہ سے ملاقات کے لئے آئے، اتفاقاً ہر بار یہی پتہ چلا کہ علامہ گھر پر تشریف نہیں رکھتے، باہر گئے ہوئے ہیں۔
ایک روز مولوی انشاء اللہ پہنچے تو علامہ گھر پر موجود تھے، مولوی صاحب نے ازراہِ مذاق کہا: ’’ڈاکٹر صاحب جب سے گانے والیاں انارکلی سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہیں، آپ کا دل بھی اپنے گھر میں نہیں لگتا‘‘۔
علامہ نے فوراً جواب دیا۔
’’مولوی صاحب، آخر انکا کیوں نہ خیال کیا جائے، وہ بھی تو ’’وطن‘‘ کی بہنیں ہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ شاہ علی بنڈہ
………………………
ایک بار میں ہی …!
٭ ڈاکٹر راحتؔ اندوری کسی مشاعرے میں اپنا کلام سُنارہے تھے ۔ شعر کچھ یوں تھا ؎
پھولوں کی دوکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو
عشق اگر خطا ہے تو یہ خطاایک بار نہیں سوبار کرو
سامعین میں سے کسی نے بلند آواز سے کہا : ’’راحت ؔ بھائی ! ایک بار کرے تو ہی فُل جوتے کھاگئے ، پتہ نہیں سوبار میں کیا حال ہوگا!؟
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
………………………