شیر میسور ’’ٹیپو سلطان‘‘ داستان حیات

محمد شجاعت علی فاروقی
ٹیپو سلطان، جن کا نام سن کر انگیریزوں کے دل کانپ جاتے تھے، ٹیپو سلطان کے والد کا نام حیدر علی اور والدہ کا نام فاطمہ ہے، سلطان حیدر علی کو اللہ تعالیٰ نے جنوبی ہندوستان کے وسیع سلطنت سے نوازا تھا ۔ 10 نومبر 1750 ء کو ٹیپو سلطان پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا نام شیخ محمد تھا۔ ٹیپو سلطان ہر وقت باوضو رہتے نماز فجر  کے بعد قرآن پاک تلاوت کرتے، زمین پر چادر بچھاکر سوتے، سچے مسلمان کی طرح ہر قسم کے تعصب سے پاک رہے، سلطنت کا نام ’’سلطنت خداداد میسور‘’ تھا اپنے ہر شاہی فرمان کے آغاز پر اپنے ہاتھ سے بسم اللہ لکھتے۔ عظیم سپاہی کی حیثیت سے آپ نے شمشیر زنی ، تیراندازی ، نیزہ بازی، گھڑ سواری ، پیراکی میں مہارت حاصل کی۔ علماء کی قدر کرتے ، آپ کو عربی اور فارسی پر خاصہ عبور تھا، انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی تھیں، مقامی بولی کنٹری سے بخوبی واقف تھی، اب جہاں تک اردو زبان کی بات ہے، اردو اس وقت جنوبی ہند میں پنپ رہی تھی۔ جب 7 ڈسمبر 1782 ء کو سلطان حیدر علی نے سرطان مرض سے وفات پائی تو 26 ڈسمبر 1782 ء کو ٹیپو سلطان تخت نشین ہوئے، اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ انہوں نے بصیرت سے دیکھ لیا تھا، سب سے بڑے دشمن انگریز ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے ٹیپو سلطان نے اپنی بری فوج کو جدید خطوط پر منظم کیا۔ پھر بحری فوج قائم کی تاکہ سلطنت کے مغربی ساحل کی حفاظت ہو۔ سمندروں میں مقناطیسی چٹانوں سے بچاؤ کیلئے جہازوں میں تانبے کا استعمال ٹیپو سلطان کے ذہن رسا کا مرہوم منت ہے، سلطنت کے چار شہروں میں ’’ تارا منڈل ‘‘کے نام سے چار اسلحہ کارخانے قائم کئے گئے۔ پھر انگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کیلئے فرانس ، ترکی ، ایران اور افغانستان میں خصوصی سفارتی وفود روانہ کئے ۔ اتفاق سے اس وقت نپولین بوناپارٹ جو مصر کو فتح کرنے کے بعد اس وقت بحیرہ قلزم کے ساحل پر خیمہ زن تھا، اس نے ٹیپو سلطان کے نام خط لکھا۔
میرے عزیز دوست ٹیپو سلطان میں آپ کو انگریزوں کے آہنی شکنجے سے چھڑنے کیلئے ایک عظیم فوج کے ساتھ بحیرہ قلزم کے کنارے موجود ہوں، کسی خصوصی معتمد کو جلد از جلد مذاکرات کیلئے روانہ کریں تاکہ آپ کا سیاسی موقف جان سکوں۔ مگر فرانس کے داخلی حالات کی وجہ نپولین کو جلد فرانس لوٹنا پڑا۔ 1799 ء کے آخری ہفتہ میں انگریزوں اور نظام دکن کی متحدہ افواج نے انگریز جنرل ہیرس کی قیادت میں سرنگا پٹنم پر جو دریائے کاویری کے درمیان ایک جزیرہ پر واقع ہے ، فیصلہ کن حملہ کیا ۔ ٹیپو سلطان نے شیر کی طرح بے جگری سے مقابلہکیا اور پھروہی ہوا جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہوتا چلا آیا ہے ۔ غیر تو غیر تھے اب ٹیپو سلطان کے اپنے بھی سفید چمڑی والوں سے مل گئے ۔ان میں تین نمایاں تھے میر صادق ، قمرالدین ، پورنیما۔ 18 ویں صدی کے یہ نمک حرام آج بھی مختلف ناموں سے مسلمانوں کے صفوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ میر صادق اور متحدہ فوج کے جنرل ہپرپس کے درمیان خفیہ طورپر یہ طئے پایا کہ 4 مئی 1799 ء کی دوپہر سرنگا پٹنم کے قلعے کی فصیل پر یلغار کی جائے ۔ اس وقت ٹیپو سلطان کے سامنے دوپہر کا کھانا رکھاتھا، باہر شور کی آوازیں سنیں اور حقیقت سے آگہی ہوئی تو فوری ا پنی زندگی کے آخری کھانے کی جانب نہیں دیکھا، عمامہ سر پر رکھا، جیبی گھڑی جیب میں ڈالی ، تلوار پکڑی اور جنگ میں کود گئے۔ بھوکے ٹیپو سلطان کے جسم پر ایک گہرا زخم آیا ۔ ٹیپو سلطان اپنی تلوار کو اونچا رکھتے ہوئے دشمنوں کی فوج میں گھس پڑے ۔ جان بہ لب شیر ٹیپو سلطان نے حیدری تلوار کا بھر پور مار مارتے ہوئے4 مئی 1799 ء کو غروب آفتاب سے پہلے میسور کا یہ آفتاب غروب ہوگیا ۔ شہادت کے وقت ٹیپو سلطان 48 برس کے تھے۔