شیخ فرید الدین عطار اور ’پند نامہ‘

صابر علی سیوانی
شیخ فرید الدین عطار 540ھ کے قریب نیشاپور میں پیدا ہوئے ۔ عطار کے عہد شباب تک انکے والدین بقید حیات تھے ۔ چونکہ عطار کے والد دوا فروش تھے ، اس لئے عطار نے بھی دوا فروشی کا پیشہ اختیار کرلیا ۔ غالب گمان یہ ہے کہ فرید الدین نے اپنا تخلص بھی ’’عطار‘‘ اسی مناسبت سے رکھا کہ وہ دواؤں کے ساتھ ساتھ عطر فروشی کا کام بھی کیا کرتے تھے ۔ وہ اپنے مطب میں بیٹھ کر مریضوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے ۔ چونکہ وہ ابتداء ہی سے فارغ البال تھے ، اس لئے دوسرے شعراء کی طرح انھیں شاعری کا پیشہ ذریعہ معاش کے لئے نہیں اپنانا پڑا ۔ شیخ فرید الدین اوائل عمری سے شباب تک علوم و فنون کی تحصیل میں مصروف رہے ۔ انھوں نے مختلف علوم متداولہ مثلاً علم کلام ، نجوم ، فلسفہ ، قرآن ، حدیث ، فقہ ، طب اور ادب میں مہارت حاصل کی ۔ عطار کے اشعار میں مذکورہ علوم و فنون کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ عطار کے والد ابوبکر ابراہیم بھی بڑے ذی علم اور فن شناس تھے ۔ عطار نے اپنی مثنوی ’’خردنامہ‘‘ میں اپنی مصروفیات کا یوں ذکر کیا ہے ۔

بہ دارو خانہ پانصد شخص بودند
کہ در ہر روز نبضم می نمودند
شیخ فرید الدین عطار کو دیگر علوم کی طرح فن فلسفہ پر زیادہ مہارت حاصل نہ تھی تاہم ان کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ عطار کو فلسفے سے ضرور شناسائی تھی ۔ شیخ فرید جوانی کے دنوں میں اپنے والد کے مرشد قطب الدین حیدر سے فیضیاب ہوئے اور ان کی نگرانی میں تصوف و معرفت کے مدارج طے کئے ۔ بچپن سے ہی انہیں درویشوں اور صوفیوں سے گہرا لگاؤ تھا ۔ اہل تصوف کا یہ شیوہ تھا کہ وہ ریاضتوں اور مجاہدوں کے ساتھ ساتھ دنیوی امور کو بھی پیش نظر رکھتے تھے ۔ عبد الحسین زرین کوب عطار کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’عطار کی تالیفات میں ابوالخیر کا نام بڑے احترام اور تکریم کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ ’’مجمل فصیحی‘‘ کے مؤلف نے تو اسے ’’پیر میہنہ‘‘ کے سلسلے میں شمار کیا ہے ۔ بہرحال اس کی مستند کتابوں کے مجموعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل طریقت صوفی اور سالک نہ تھا ۔ اولیاء اور مشائخ سے عقیدت کی بدولت اور اپنے ذاتی ذوق و شوق کے باعث ان کی حکایتوں ، داستانوں ، احوال زندگی اور تالیفات کا مطالعہ کرتا اور ان کے اقوام کو اپنے اشعار کے ذریعے پیش کرتا رہا ۔ اسی وجہ سے بعض نے اس کا شمار ’’سلسلہ اُویسیہ‘‘ میں کیا ہے ‘‘۔
(گلستانِ عجم : عبدالحسین زرین کوب ص ۲۲۲)

شیخ فرید الدین عطار نے معرفت و سلوک کے منازل طے کرتے ہوئے اپنی زندگی اور اپنے پیش رو علماء و صوفیاء کے حالات و کوائف کا بھی جابجا ذکر کیا ہے ۔ اپنی عمر اور اپنے عشق و محبت کے پیچیدہ منازل کو کن حالات میں طے کیا ، اس کا بھی ذکر ان کی تخلیقات میں جا بجا ملتا ہے ۔ اپنی زندگی کے ستر سال کی کیفیت اس انداز سے بیان کرتے ہیں ۔
چون زمقصود خود ندیدم بوی
سوی عمر رہم زیان آمد
دین ہفتاد سالہ داد بباد
مرد میخانۂ مغان آمد
جلال الدین رومی جیسے عارف باللہ اور معرفت و سلوک کے دلدادہ عطار کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ رومی سے زیادہ بھلا کون عطار کو سمجھ پایا ہوگا ۔ رومی نے عطار کی بلندی و برتری کے واضح اور روشن پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے یوں مدح سرائی کی ہے
عطار روح بود و سنائی دو چشم او
ما ازپی سنائی وعطار آمدیم
رومی نے عطار اور سنائی کی عظمت کا اقرار کیا ہے اور ساتھ ہی ان سے فیوض و برکات بھی حاصل کئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ رومی نے اپنے پیش رؤں (سنائی ، عطار) کے انداز پر اپنی شاعری کی بنیاد ڈالی ۔ اسی لئے عطار کے افکار وخیالات اور سلوک و معرفت کے بنیادی نکات کے نشانات رومی کی شاعری پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ رومی دوسری جگہ عطار کی پذیرائی اس انداز سے کرتے ہیں۔

من آن ملای رومی ام کہ از نطقم شکر ریزد
ولیکن درسخن گفتن غلام شیخ عطارم
مولانا روم فرماتے ہیں کہ میری شاعری میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے لیکن میری شاعری کا اصل منبع و مرجع شیخ فرید الدین عطار کی ذات ہے ۔ شاعری کے میدان میں خود کو میں عطار کا غلام تصور کرتا ہوں ۔ اس قول سے عطار کی فضیلت وبزرگی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ عطار نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور دوران مسافرت شیخ فرید الدین عطار صرف عارفوں اور صوفیوں کے حالات کی جستجو میں نہیں لگے رہے ، بلکہ خود بھی معرفت کی منازل طے کرتے رہے ۔ عطار نے مصر ، دمشق ، مکہ ، ترکستان اور ہندوستان کا سفر کیا ۔ ان اسفار نے عطار کو جلابخشی اور علماء و فضلاء کی صحبت کا خاصا اثر قبول کیا ۔ ان بزرگوں کی صحبت کا ہی اثر تھا کہ ان کی شاعری میں وحوش و طیور ، اقوال زریں کے ذخائر ، اور عشق و محبت اور معرفت کے اسرار و رموز کی ایک تابناک دنیا نظر آتی ہے ۔ دوران سفر عطار کو جن حضرات سے فیض حاصل ہوا ان کے تذکرے انھوں نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الاولیا‘‘ میں شامل کئے ۔ عطار نے سلوک و معرفت کی شناخت کے منازل طے کرتے ہوئے جو بزرگی اور شہرت و ناموری حاصل کی اس کی جانب مولانا روم اشارہ کرتے ہیں ۔

ہفت شہر عشق را عطار گشت
ماہنوز اندر خُمِ یک کوچہ ایم
رومی نے عطار کی پیروی کا ببانگ دہل اعلان کیا ہے ۔ جس طرح اقبال پر رومی کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اسی طرح مولانا روم پر شیخ فرید الدین عطار کے اثرات مرتسم ہوئے ہیں ۔ رومی کہتے ہیں ۔
آنچہ گفتم درحقیقت ای عزیز
آن شنید ستم من از عطار نیز
عطار کی تخلیقات میں تذکرۃ الاولیاء ،دیوان عطار کے علاوہ ان کی مثنویاں ، مصیبت نامہ ، الہی نامہ ، خسرو نامہ ، اسرار نامہ ، جواہر نامہ ، منطق الطیر ، اشتر نامہ اور پند نامہ شامل ہیں ۔ یہاں ان کی ایک مثنوی ’’پند نامہ‘‘ کے متعلق تفصیلات بہم پہنچائی جارہی ہیں ۔

شیخ کی تصنیفات میں ایک چھوٹا سا رسالہ ’’پند نامہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ رسالہ صرف 52 صفحات پر مشتمل ہے ، جسے ’’سب رنگ کتاب گھر‘‘ دہلی نے شائع کیا ہے ۔ اس پر قاضی سجاد حسین سابق صدر مدرس مدرسہ عالیہ فتحپوری دہلی کا حاشیہ موجود ہے ۔ مشکل الفاظ کے معانی اور مختصر سی توضیحات بھی پیش کی گئی ہے ۔ یہ رسالہ نہایت کارآمد اور اخلاق آموز نصائح پر مشتمل ہے ۔ ’’پند نامہ‘‘ کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ صرف ترکی میں اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سے اس رسالے کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’پند نامہ‘‘ زندگی کا ایک مکمل ضابطہ و دستور ہے ، جس میں ایک مرد صالح کی زندگی کے لئے کن کن امور کا لحاظ و پاس رکھنا ضروری ہے ان تمام مسائل کو عطار نے اپنے اس مختصر سے رسالے میں نہایت ناصحانہ انداز بیان میں پیش کردیا ہے ۔ اگر شیخ سعدی کی کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ نثر میں مکمل ضابطہ حیات ہے تو عطار کا ’’پند نامہ‘‘ منظوم اصول زندگی ہے ۔ زبان کے اعتبار سے بھی پند نامہ اس قدر سہل ہے کہ معمولی فارسی جاننے والا بھی اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ اتنی آسان زبان اور اتنا وقیع مضمون اور پند و نصیحت سے پر مختصر سی کتاب ایسی معلوم ہوتی ہے گویا سمندر کوزے میں بند ہے ۔ پند نامہ میں شیخ عطار نے متعدد عنوانات مثلاً فوائد خاموشی ، عمل خالص ، مخالفت نفس امارہ ، سیرت و سلوک ، حسن خلق ، مہلکات ، اہل سعادت ، سبب عافیت ، ریاضت ، خود ستائی ، عافیت ، رستگاری ، مذمت خشم و غضب ، غنیمت عمر ، صفت زندگانی ، جہانِ فانی ، مذمت دنیا ، علامات فاسق ، فوائد قناعت ، علامات منافق ، فوائد صبر وغیرہ عنوان کے تحت نہایت عبرت آموز نصائح لکھے ہیں ، جن پر عمل پیرا ہو کر ایک کامیاب اور پرسکون زندگی گذاری جاسکتی ہے ۔

جیسا کہ عنوانات مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کون سی خامیاں اور برائیاں انسان کو ذلیل و خوار بناتی ہیں اور کن خصوصیات کا حامل انسان باعزت و پروقار زندگی بسر کرسکتا ہے ۔ یہاں ’’پند نامہ‘‘ سے چند اشعار نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
عطار ’’دربیان عمل خالص‘‘ عنوان کے تحت چار چیزوں کو چار چیزوں سے پاک رکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
ہر کہ باشد اہل ایمان ای عزیز
پاک دارد چار چیز از چار چیز
از حسد اول تو دل را پاک دار
خویشتن را بعد ازان مومن شمار
پاک دار از کذب و از غیبت زبان
تاکہ ایمانت نیفتد در زیان
پاک گر داری عمل را از ریا
شمع ایمان ترا باشد ضیا
چون شکم را پاک داری از حرام
مرد ایمان دار باشی والسلام
ہر کہ دارد این صفت باشد شریف
ور ندارد دارد ایمانِ ضعیف
عطار نے اہل ایمان کے لئے چار شرطوں کو لازم گردانا ہے۔ دل کو حسد سے ، زبان کو جھوٹ اور غیبت سے ، عمل کو ریاکاری اور دکھاوا سے اور شکم کو مال حرام سے پاک رکھنے کو اہل ایمان کے لئے ضروری شرط مانا ہے ۔ اگر کسی انسان میں مذکورہ چار شرطیں پائی جاتی ہیں تو وہ انسان مومن اور شریف ہونے کا دعوی کرسکتا ہے ۔خاموشی کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے عطار کہتے ہیں۔
حاصل آید چار چیز از چار چیز
یادگیر این نکتہ ازمن ای عزیز
خاموشی را ہر کہ سازد پیشہ ای
گردد ایمن نبود اندیشہ ای
گر سلامت بایدت خاموش باش
گشت ایمن ہر کہ نیکی کرد فاش
از سخاوت مرد یابد سروری
شکر نعمت را دہد افزون تری

چار چیزیں چار چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں ۔ جو خاموش رہتا ہے وہ محفوظ و بے فکر رہتا ہے ۔ جو نیکی کرتا ہے وہ سلامت اور محفوظ و مامون رہتا ہے ۔ سخاوت سے انسان سرداری حاصل کرلیتا ہے ۔ شکران نعمت سے اس کی نعمتیں روز بہ روز بڑھتی جاتی ہیں ۔
یہاں شیخ سعدی کا وہ شعر یاد آرہا ہے جس میں سعدی نے انسان کی خوبیوں اور خامیوں کے متعلق لکھا ہے کہ جب تک انسان خاموش ہے اس وقت تک اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں ۔ لیکن جہاں اس نے زبان کھولی اس کے عیوب و ہنر لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ سعدی کا ایک شعر ہے۔
تامرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
مگر اس شعر سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان کے اندرکچھ کمزوریاں ہیں یا اس کی علمی صلاحیت ناقص ہے تو بہترہے کہ وہ اہل علم وہنر کے سامنے خاموش رہے اور ان کی گفتگو سے سبق سیکھے ۔ مگر ہر وقت خاموش رہنا بھی عیب تصور کیا جاتا ہے ۔ مصلحتاً خاموشی بہتر ہے مگر ضرورتاً لازمی نہیں ہے ۔ بوعلی سینا کا ایک قول جو اس دعوے کی دلیل میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ فرماتے ہیں
’’ذکر سے خالی بات لغو ہے ، عبرت سے خالی نظر لہو ہے اور فکر سے خالی خاموشی سہو ہے‘‘ ۔
’’نصیحت وخیر اندیشی‘‘ کی اہمیت کے بارے میں عطار نہایت آزمودہ نسخہ بتاتے ہیں
ہر کہ راسہ کار عادت باشدش
درجہان بخت و سعادت باشدش
اولاً گر بیند او عیب کسان
درملامت ہیچ نکشاید زبان
ہر کرا بینی براہ ناصواب
سربراہش آر تایابی ثواب
زحمت خود را زمردم دور دار
بار خود برکس میفگن زینہار
جس شخص کے اندر تین خصلتیں ہوں گی وہ سعادت مند اور نصیبہ والا ہوگا ۔ یعنی وہ کسی کی عیب جوئی نہ کرے ، اگر کسی کو غلط راستے پر دیکھے تو اس کو سیدھے راستے پر ڈال دے ، اپنی زحمت و تکلیف کو لوگوں کے سامنے پیش نہ کرے اور ہرگز اپنا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالے ، یعنی وہ دوسروں کے لئے مصیبت کا سامان نہ پیدا کرے یعنی اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے ۔
شیخ فرید الدین عطار کی پوری زندگی تجربات کا ایک بحر ناپیداکنار ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عطار کو معاشرتی طور پر کافی گہرا تجربہ حاصل تھا ، کیونکہ ان کی نصیحتیں انہی تجربات و احساسات کا نچوڑ ہیں جو ان کی زندگی میں پیش آئے ۔ عورتوں ، بچوں اور غلام و سلطان کی نفسیات سے وہ بخوبی واقف تھے ۔ اس لئے تو وہ ہدایت کرتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں سے زیادہ رغبت اور بے تکلفی مت پیدا کرو ۔ ’’دربیانِ صفتِ زنان و صبیان‘‘ کے تحت عطار اپنے احساسات کو اس طرح منظوم کرتے ہیں ۔

چار چیز است از خطا ہا ای پسر
گوش دارش با تو گویم سر بسر
اول از زن داشتن چشمِ وفا
سادہ دل رابس خطا باشد خطا
ایمنی ز ابلہ خطای دیگر است
صحبتِ صبیان ازینہا بدتراست
چار می از مکر دشمن ایمنی
کَے کند دشمن بغیر از دشمنی
چار چیزیں خطا کے زمرے میں آتی ہیں ۔ پہلی چیز عورت سے وفا کی امید کرنا اور بیوقوف سے بے خوف و پُر اطمینان ہونا ۔ بچوں کی صحبت ان دونوں چیزوں سے بُری ہیں ۔ چوتھی چیز دشمن کے مکر و فریب سے بے خوف رہنا کیونکہ دشمن سے سوائے دشمنی کے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
عطار نے کائناتی حقیقت کو اجاگر کرکے یہ بتادیا کہ اگر سکون کی زندگی چاہتے ہو تو عورتوں سے زیادہ رغبت اور وفا کی امید مت رکھو ۔ اور بچوں کے ساتھ بے تکلفی کا مظاہرہ مت کرو یعنی ان سے بہت زیادہ قربت مت اختیار کرو ۔ دشمن کی مکاری ہمیشہ تمہیں نقصان ہی پہنچائے گی اس لئے اپنے دشمن کے مکر و فریب سے کوسوں دور رہو ۔ دوسری جگہ اسی بات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں ۔
شد دو خصلت مردِ نادانِ را نشان
صحبت صبیان و رغبت بازنان
(دربیان علامتِ نادان)
یعنی نادان لوگوں کی دوعلامتیں ہوتی ہیں بچوں کی صحبت میں رہنا اور عورتوں سے زیادہ رغبت رکھنا ۔ ’’پند نامہ‘‘ ایک مختصر سی کتاب ہے لیکن اس میں عطار نے زندگی گزارنے کا جو ہنر پیش کیا ہے اس پر عمل آوری کے ذریعہ زندگی بامقصد اور خوشگوار بنائی جاسکتی ہے ۔
mdsabirali70@gmail.com