شہر کا افسر، گاؤں کا پٹواری بہت اسمارٹ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے عوام نے چندر شیکھر راؤ کو چیف منسٹر منتخب کرکے جو توقعات باندھی تھیں انھیں پوری کرنے کی زبردست تشہیر چل رہی ہے۔ غریبوں کیلئے ڈبل بیڈ روم کے مکانات تعمیر کرنے کی مہم کامیاب بتائی جارہی ہے جبکہ حکومت کے پاس اراضی ہی نہیں ہے۔ کے سی آر کا معاملہ اس بادشاہ کی طرح ہے جس نے ایک قمیض بنانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ یہ قمیض صرف عقلمندوں کو ہی نظر آئے گی۔ اس کے بعد کسی نے بھی یہ کہنے کی ہمت نہیں کی کہ بادشاہ نے قمیض ہی نہیں بنائی۔ صرف اس طرح کا شوشہ چھوڑا ہے لیکن کوئی ایسی بات کرے تو لوگ اسے عقلمند نہیں سمجھیں گے ، اس لئے لوگ چیف منسٹر کی ہر بات کو عقلمندی کا ثبوت دینے کے لئے قبول کرتے جارہے ہیں۔ یادش بخیر چیف منسٹر نے چند ماہ قبل ہی مسلمانوں کو تحفظات دینے سے متعلق خوش کن اعلانات کئے تھے ، اس کے علاوہ حیدرآباد کو اسمارٹ شہر بنانے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ حیدرآبادکی صاف صفائی کی دیکھ بھال کرنے والے ادارہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے شہریوں کو ای شہری سرویس فراہم کرنے کی تجویز رکھی تھی جس میں مفت وائی فائی، ایک اسمارٹ ہاؤز نمبر پراجکٹ اور محفوظ سٹی پراجکٹ تیار کیا گیا تھا جس کی لاگت 46.15 کروڑ روپئے تخمیناً لگائی گئی تھی لیکن کارپوریشن نے ان تجاویز پر ایک نیا پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔ سرسبز و شاداب حیدرآباد پراجکٹ کے تحت تلنگانہ کو ہریتا ہارم اور تالابوں کے احیاء اور ان کا تحفظ اور خوبصورت بنانے کی بھی تجویز تھی جس کے لئے 235 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے۔ اتنی بڑی رقم مختص کئے جانے کے باوجود کارپوریشن نے صرف 20کروڑ ہی خرچ کئے ہیں۔

دوسرا سب سے بڑا پراجکٹ موسی ندی کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنانا تھا جس کے لئے 21کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ تھا لیکن یہاں ہنوز کام ہی شروع نہیں ہوا۔ کارپوریشن نے 86کروڑ روپئے کے مجوزہ سڑک کاموں کا منصوبہ بنایا مگر یہاں بھی چند کروڑ روپئے ہی خرچ کئے گئے۔ بارش کے پانی کے بہاؤ کے لئے ڈرینج پائپ بچھانے کے لئے یا انہیں بہتر بنانے 257 کروڑ روپئے کی تجویز تھی لیکن صرف 39 کروڑ روپئے ہی جاری کئے گئے۔ ساری تلنگانہ حکومت ہی قرض کے بوجھ میں ڈوب چکی ہے تو گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن بھی اس قرض کی جال میں پھنس گیا ہے یا پھنسا دیا گیا ہے۔ اس پر اضافی بوجھ یہ ہے کہ تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ( ٹی ایس آر ٹی سی ) کو 337 کروڑ روپئے مالی امداد فراہم کی گئی۔ حکومت کی ہر نااہلی کی تفصیلات حاصل کرتے ہوئے شہر کے ہی اپوزیشن لیڈر سی پی ایم سٹی یونٹ کے سکریٹری ایم سرینواس نے حکومت کے کاموں اور اعلانات میں پائے جانے والے فرق کو قانون حق معلومات کے تحت حاصل کیا۔ یہ حکومت اب اتنی سخت گیر، بے شرم ہوچکی ہے کہ اس پر کوئی تنقید اثر نہیں کررہی ہے۔ البتہ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنے اطراف رہنے والے حواریوں کو خوش ضرور کرنا شروع کردیا ہے اس لئے انہوں نے 8مارچ سے شروع ہونے والے اسمبلی سیشن سے قبل تمام 400 نامزد عہدوں پر تقررات پر غور کیا ہے اور ارکان اسمبلی کیلئے ایک کروڑ روپئے کی لاگت سے ان کے حلقہ اسمبلی میں ایک شاندار مکان بناکر دینے کے منصوبہ کو قطعیت دے دی ہے۔ حیدرآباد کے 14 ارکان اسمبلی کے لئے یہ سہولت فی الحال نہیں رہے گی ۔ چیف منسٹر نے اپنے قیام کیلئے شاندار محل تیار کرلیا ہے تو وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ریاست کے منتخب ارکان اسمبلی ناراض رہیں اس لئے انہیں خوش کرنے کیلئے انہوں نے ہر اسمبلی حلقہ میں ایم ایل اے کا ایک مکان بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ ریاست کے ہر گاؤں میں کام کرنے والے ایک ویلیج آرگنائزیشن اسسٹنٹس کو بھی انہوں نے بڑی راحت پہنچائی ہے جو ویلیج اسسٹنٹس اب تک 500تا 1500 روپئے کی تنخواہ حاصل کرتے تھے انہیں ماہانہ 5000 روپئے دینے کا فیصلہ کیاہے۔حکومت کے کارندے تو یہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہ معاشی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے بے شمار کام انجام دیئے جارہے ہیں۔

دیہاتوں میں سرکاری کرمچاری کا جو رعب و دبدبہ رہتا ہے وہ شاید شہروں میں ضلع کلکٹرس یا اعلیٰ عہدیداروں کا بھی نہیں ہوتا ہوگا۔اس لئے آپ کو یہ یاد ضرور ہوگا کہ ماضی میں دیہی علاقوں میں جب کوئی نوجوان اپنے خاندان یا محلے کے بزرگوں کی خدمت انجام دیتا تو اسے دعا دے کر یہ کہتے کہ اللہ تجھے پٹواری بنائے۔ گاؤں کا پٹواری اور اس کو حاصل ہونے والے مراعات سے ہی گاؤں کے بوڑھے لوگ حد سے زیادہ خوش اور مرعوب ہوتے۔ پٹیل پٹواری کا دور اپنی ایک شان رکھتا تھا۔ اب ہر گاؤں کا نظام ہی حکمرانوں کی نیتوں کے مطابق بدلتا جارہا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے ویلیج اسٹیشن کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا اب فیصلہ کیا ہے جس کا فائدہ 18405 وی اے او کو ہوگا۔ ایماندار لوگ جو آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں آپ نے انہیں ہمیشہ ہر جگہ پریشان حالی میں دیکھا ہوگا۔ کیونکہ کرپشن کے ساتھ یہ ایماندار لوگ خود کو اڈجیسٹ ہی نہیں کر پاتے اس لئے ہمیشہ پیچھے چلتے ہیں۔ ایماندار شخص چاہے وہ چیف سکریٹری ہی کیوں نہ ہو دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا اور بنیادی فرائض ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے حکومت کا کام کاج کچھ حد تک چلتا رہتا ہے۔ عوام کو بھی تھوڑی راحت ملتی ہے۔ جو بدعنوان ہوتے ہیں انھیں کسی بھی خرابی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ریاست میں انٹر میڈیٹ امتحانات کا آغاز ہوا تو کئی بدعنوان کالجس نے طلباء اور سرپرستوں کو دھوکہ دیا اور ہال ٹکٹ سے محروم کیا۔ ہال ٹکٹ نہ ملنے سے کئی طلباء امتحان نہیں لکھ پائے، اس کی وجہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کے عہدیداروں کی کرپشن نواز پالیسیاں بتائی جاتی ہیں۔

ریاست خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں غیر مسلمہ اور غیر الحاق والے کالجس کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ زائد از 200 جونیر کالجس ایسے پائے گئے ہیں جنہوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ کالجس تلنگانہ اسٹیٹ بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن سے ملحق ہی نہیں ہیں لیکن ان کالجس نے سینکڑوں بچوں کو داخلہ دیا اور جب امتحان کا دن آیا تو ان بوگس کالجوں نے اپنے طلبہ کو دوسرے کالجس میں انرول کرواکر امتحان ہال میں بٹھانے کا بندوبست کیا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر تعلیم کڈیم سری ہری کو یہ بات معلوم ہے اور وہ اعتراف بھی کررہے ہیں کہ بی آئی ای کے عہدیداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی اور حکومت نے ان بدعنوان بی آئی ای کے عہدیداروں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ مطلب یہی کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کی لاپرواہی کا خمیازہ طلبہ اور سرپرستوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آیا ان حالات میں ایک اور عوامی تحریک اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
kbaig92@gmail.com