شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا

ؑڈاکٹر قاری سید صدیق حسین
ہر دن اخبار دیکھنے کے بعد ہی گھر سے باہر نکلتا تھا ۔ دوارن مطالعہ اس کالم پر ضرور نظر ڈال لیا کرتا جس میں اس دار فانی سے کوچ کرنے والوں کی خبریں ہوا کرتی تھیں ۔ عجیب اتفاق یوں ہوا کہ جس دن ڈاکٹر مجید خان کے رحلت فرمانے کی اطلاع تھی اسی دن کا اخبار شاید گھر لیٹ پہنچا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ میں اس بڑی خبر سے بے خبر تھا ۔ حسب معمول عرب مریضوں کے درمیان ترجمانی میں مصروف تھا کہ میرے محترم دوست جناب منیر الزماں منیر صاحب کا فون آیا کہ ’’جناب مجید خان صاحب کا انتقال ہوچکا ہے اور بعد نماز ظہر مسجد عالیہ میں نماز جنازہ ادا کی جائے گی‘‘ ۔ اس جانکاہ خبر پر بڑی مشکل سے یقین آیا ۔ نہ بیمار رہنے کی کوئی اطلاع نہ کوئی اور خبر اور یکایک اتنی بڑی خبر کہ ’’سانحہ ارتحال کی خبر‘‘ ۔ اس خبر کو سننے کے بعد فوری مسجد عالیہ کا رخ کیا ۔ مسجد پہنچنے تک جنازہ مسجد میں لایا جاچکا تھا ۔ جنازے کے قریب آگیا آنسوؤں نے پلکوں کو بھگودیا ۔ اکیلا ہی جنازے کے سرہانے کھڑے ہو کر رقت کے ساتھ دعائے مغفرت کرنے لگا ۔ دعا کے بعد مسجد میں ایک طرف بیٹھ گیا ۔ اکابرین شہر کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور میں ماضی میں ڈاکٹر صاحب کی رفاقتوں کے واقعات میں کھو گیا ۔

دوران تعلیم انٹرمیڈیٹ کے تکملہ کے دوران پابندی سے میسکو کے لکچرز اردو گھر مغلپورہ میں ہوا کرتے تھے ۔ دوسرے دن اخبارات میں بطور خاص ’’سیاست‘‘ اخبار میں ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا خلاصہ چھپتا تھا ۔ اس خبر کو ہم بڑے انہماک اور دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے ۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے ادا کئے گئے کلمات انسانی عقلوںکو متاثر کیا کرتے تھے ۔ لوگ غور و فکر کرنے کی طرف راغب ہوا کرتے تھے ۔ پھر کیا ہوا نہیں معلوم ۔ وہ لکچرز کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔ اور اس وقفے کے بعد ڈاکٹر صاحب کے لکچرز مختلف عنوانات کے تحت مختلف مقامات پر ہوا کرتے تھے ۔ میں ان لکچرز میں پابندی سے شریک ہوا کرتا تھا ۔ گذشتہ پانچ سات سال کے دوران ڈاکٹر صاحب سے رابطے کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد دوسرے دن فون پر رابطہ کرتے ہوئے تبصرہ ہوتا اور ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد دیتا تھا ۔ میرے فون کے وہ اس قدر عادی ہوگئے تھے کہ کچھ مصروفیت کی بنا پر دوچار ہفتوں کیلئے رابطہ منقطع رہا تو ڈاکٹر صاحب نے فون پر کہا ’’کیا صدیق صاحب مضمون پسند نہیں آیا کیا ؟ کیا بات ہے آپ کا فون نہیں آیا‘‘ ۔ فون نہ کرنے کی مجھے شرمندگی ہوا کرتی تھی پھر کچھ معقول وجہ بتانے کے بعد ڈاکٹر صاحب مطمئن ہوجاتے ۔ مضمون کے مطالعہ کے بعد ڈاکٹر صاحب سے جب گفتگو ہوا کرتی تو ڈاکٹر صاحب کہا کرتے کہ ’’آپ اس نکتے پر مجھ سے بات کرینگے میں نے سوچ رکھا تھا‘‘ ۔ اس ذہنی ہم آہنگی پر مجھے رشک ہوتا تھا ۔ دوران گفتگو قہقہے لگتے اور بیحد کارآمد باتیں ہوا کرتی تھیں ۔

روزنامہ سیاست کے ہفتہ وار سپلیمنٹ میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون نفسیاتی کمزوریوں کو حوصلہ بخشتا ۔ ہر مضمون اس نوعیت کا ہوتا کہ قاری اس میں اپنے آپ کو تلاش کرلیتا اور سدھار کی طرف رواں دواں ہوتا ۔ بالخصوص شادی شدہ جوڑوں کی ناانصافی کی وجوہات کو اس طرح ایک ایک کرکے گناتے کہ وہ رقابت کی ڈگر سے رفاقت کی طرف لوٹ آتے اور ان کی افسردہ صورتوں پر نکھار آجاتا ۔ خاندان کے بزرگ ہو کہ جوان افراد ان کے ہاتھوں معصوم بچوں کے استحصال کے واقعات کو اس طرح چھان بین کرکے نکالتے کہ افراد خاندان سشدر رہ جاتے اور ڈاکٹر صاحب کی تحقیق صد فیصد درست ثابت ہوتی ۔ ڈاکٹر صاحب مجھ پرخاص توجہ فرماتے ۔ ہر ہفتہ شائع ہونے والے مضمون پر میں کھل کر فون پر تبصرہ کرتا جہاں مضمون میں کوئی کور دبتی نظر آتی واضح کردیتا ۔ ڈاکٹر صاحب میری اس جرأت کو سراہتے کہتے مجھے بھی یہاں جہاں تم نے اشارہ کیا کوئی بات کھٹکتی نظر آئی ۔ ڈاکٹر صاحب میرے بزرگ دوست تھے میں ان کی جناب میں بے تکلف ہوتا ۔ ڈاکٹر صاحب کے مضامین کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ مضمون سہل ممتنع نثر کا شاہکار ہوا کرتا کبھی کبھی مضمون پڑھ کر مجھے غالب کا شعر یاد آجاتا ۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بزم احباب دکن حیدرآباد کے زیر اہتمام ڈاکٹر صاحب کے لکچرز کا سلسلہ جاری ہوا تھا ۔ چار مینار بینک کے بند ہوجانے کے بعد اکثر اخبارات میں کھاتے داروں کے خودکشیوں کی خبریں آرہی تھی ۔ اسی دوران این آر آئی ہاوز NRI House ہمایوں نگر میں ڈاکٹر صاحب کا ایک لکچر اسی موضوع پر رکھا گیا تھا ۔ اس لکچر کا لوگوں کو اچھا اثر ہوا ۔ لکچر کے بعد لوگوں میں ایک طرح کی امید جاگی اور حوصلہ بندھا اور خودکشی کے رجحان میں بہت حد تک کمی محسوس کی گئی ۔

ڈاکٹر صاحب کا ہرمضمون تجربات سے لیس ہوتا ، اور اپنے پاس علاج معالجے کے لئے آنے والوں کے حالات کو اس انداز میں ضبط تحریر لایا کرتے کہ قاری کو مضمون ختم ہونے تک وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گزشتہ دہوں میں رمضان المبارک عین سخت گرما کے موسم میں آگیا ۔ لوگ پیاس کی شدت سے دوچار ہوا کرتے ۔ اس موضوع پر ڈاکٹر صاحب کا مضمون ’’پیاس پیاس نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کئی دنوں تک اخبارات میں اس پر تبصرے اور خطوط شائع ہوتے رہے ۔ آپ کا مضمون پڑھنے کے بعد روزہ رکھنا اور پیاس پر قابو پانا ہمارے لئے آسان ہوگیا ۔

ڈاکٹر صاحب کی کتاب کی حال ہی میں رسم رونمائی انجام پائی تھی جس میں ڈاکٹر صاحب کے ان تمام مضامین کا احاطہ کیا گیا تھا جو روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے ہفتہ وار ایڈیشن میں شائع ہوچکے تھے ۔ کتاب خریدنے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہاکہ ’’شاید ہی اس کتاب میں کوئی ایسا مضمون ہوگا جو میری نظر سے نہیں گزرا ہو‘‘ ۔ اس تبصرے پر ڈاکٹر صاحب مسکراکر رہ گئے ۔
ڈاکٹر صاحب ہی کے مضمون کے حوالے سے مجھے ایک ایسا واقعہ یاد آرہا ہے جس کا یہاں ذکر قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا ۔ واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک ہائیلی کوالیفائیڈ گھرانے کا جوڑا جو شادی کے بعد امریکہ میں مقیم تھا جس کی شادی دو متمول گھرانوں میں ہندوستان میں انجام پائی تھی ۔ لڑکا خوبصورت ، تعلیم یافتہ ، صحتمند اور لڑکی بھی اسکی معیار کی ، لیکن شادی کے بعد کئی برسوں سے ان کی گود ہری نہیں ہوسکی تھی ۔ دونوں طرف کے والدین اس جوڑے کے لاولد ہونے پر بیحد پریشان و مضطرب رہا کرتے ۔ مختلف دواخانوں شفاخانوں کے چکر کاٹ چکے تھے ۔ لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل رہا تھا ۔ بالآخر لوگوں نے کہا کہ ’’ڈاکٹر مجید خان صاحب سے ایک بار مل لیں‘‘ ۔ یہ جوڑا چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں آن موجود ہوا ۔ڈاکٹر صاحب نے اس جوڑے کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کیا ۔ تفصیلات ملتی گئی اور بات آگے بڑھتی رہی ۔ دوران گفتگو ڈاکٹر صاحب نے نوشہ سے پوچھا کہ تمہارے سسر نے شادی سے پہلے تم سے کٹنم کے بارے میں کیا کہا تھا؟ ۔ نوشہ نے کہاکہ کٹنم کی رقم شادی کے موقع پر نہیں دی گئی ۔ سسر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اس رقم کو بعد میں ادا کردے گا ۔ڈاکٹر صاحب نے جب یہ کیفیت سنی تو آپ نے اپنے سوالات کی لسٹ کو یہیں پر ختم کردیا اور نوشہ کے سسر سے کہا کہ آپ یہ رقم ابھی اسی وقت یا پہلی فرصت میں اپنے داماد کے حوالے کردیں ۔ سسر صاحب نے وعدہ شدہ رقم جو کسی وجہ سے ادا نہیں کی گئی تھی فوری ادا کردی ۔ اور جب دوسری دفعہ یہ جوڑا ڈاکٹر صاحب سے ملنے آیا تو ان کے ہاں ایک خوبصورت لڑکے نے جنم لیا تھا اور یہ جوڑا نہایت ہی خوش و خرم نظر آرہا تھا ۔ اس واقعے کی تحلیل کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی کہ جب یہ رقم شادی کے موقع پر اس تک نہیں پہنچی تو اس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات لٹک کر رہ گئی کہ اس کے خسر نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔ یہی ایک نفسیاتی کشمکش تھی جو اسے صاحب اولاد ہونے میں مانع ہورہی تھی ۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جس کو ڈاکٹر صاحب اپنے دوران علاج ’’لاینحل‘‘ گتھیوں کو سلجھایا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب کی قیافہ شناسی اس قدر گہری تھی کہ کسی بھی مرد و عورت کے وضع قطع اور لباس کی تراش خراش پر ایک نظر ڈالتے ہی اس کی نفسیاتی کیفیات کو بتادیا کرتے تھے ۔ جب کبھی ڈاکٹر صاحب کا لکچر ہوتا اس میں تجربات پر مبنی واقعات کا ایک لامتناہی تسلسل ہوتا تھا ۔ دوران گفتگو معاشرے کے افراد کو ان کے نفسیاتی مسائل سے آؑگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاق و تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حدیث و قرآن کا ایسا indirect حوالہ دیتے تھے جس کو سننے کے بعد سامع پر ایک گونا اثر ہوتا تھا ۔ اور وہ اثر اس وعظ و نصیحت سے بھی زیادہ وتا تھا جو روایتاً مذہبی شخصیات اپنے تحریر و تقریر سے کرنا چاہتے تھے ۔
بہرحال ڈاکٹر صاحب کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کریں اور کن کا نہ کریں ، رہ رہ کے یہی خیال آتا ہیکہ ’’شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا‘‘ ۔ دعا ہیکہ اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے جمیع لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔