شہریوں کو اسمارٹ خدمات کے بغیر اسمارٹ سٹی

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
تلنگانہ کو عالمی نقشہ میں نمایاں ترقی یافتہ ریاست بنانے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا عزم قابل تعریف ہے لیکن یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا ایک پسماندہ ریاست اور غریب تلنگانہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گرم خبر ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ ٹھنڈی پڑ جائے گی ۔ گزشتہ چار ماہ سے تلنگانہ حکومت کا ہر اعلان کی بات آنی جاتی ہورہی ہے جب کبھی چیف منسٹر کی توجہ خاص مسائل کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے تو وہ صحافیوں سے کہتے ہیں کہ مجھ میں اتنا دماغ نہیں ہے کہ میں ایک بات بار بار دہراؤں اور وہ گول گول باتیں کرکے اپنی کارکردگی کو اسمارٹ سٹی ، عالمی درجہ کی ترقی کے حوالے سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ شہر میں میٹرو پولس ورلڈ کانگریس پلینری سیشن کا انعقاد ہے ۔ اس سے یہ توقع پیدا ہوگئی ہے کہ چیف منسٹر اپنے عزم کو پوری مضبوطی سے روبہ عمل لانے کوشاں ہیں۔ اسمارٹ سٹیز کو ایک اسمارٹ ترین شہری خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ آیا حیدرآباد اسمارٹ سٹی بن جائے تو موجودہ انفراسٹرکچر ، برقی بحران اور بلدی مسائل کے درمیان شہریوں کو اسمارٹ خدمات فراہم کرنے میں کامیابی ملے گی۔

حیدرآباد کو عالمی درجہ کا اسمارٹ سٹی بنانے کے لئے چیف منسٹر کے فرزند اور وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے تارک راما راؤ نے شہر کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کا اظہار کیا ہے ۔ تلنگانہ کی 39 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے اور یہ تلنگانہ ایک شہری ریاست کہلاتی ہے جن کو کئی چیلنجس اور مواقعوں کا بہ یک وقت سامنا ہے ۔ اس لئے حکومت نے بڑے ایجنڈہ کو قطیعت دی ہے ۔ بلاشبہ نئی ریاست کے منفرد مسائل اور چیلنجس ہیں اور ریاست نے نئی شروعات کی ہے تو پوری یقین کے ساتھ حکومت نے مسائل کی یکسوئی کی سمت قدم اٹھایا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ شہریوں کو بہتر نظم و نسق دینا چاہئے تو اسے عوام کی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھنا چاہئے ۔ ایسے منصوبے اور اسکیمات وضع کئے جانے چاہئے جو ان کیلئے موزوں اور مناسب ہوگا ۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اقلیتوں کیلئے منصوبے بنانے میں خاص کر غریب مسلم خاندانوں کی لڑکیوں کی شادی کیلئے شادی مبارک اسکیم بناکر اس میں اتنے سخت شرائط ٹھونس دیئے ہیں کہ ان کی تکمیل ایک غریب خاندان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ جب چیف منسٹر نے فراخدلی کے ساتھ مسلم غریب لڑکی کی شادی کے لئے رقمی امداد کا اعلان کیا ہے تو اس میں شرائط رکھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس لئے ان سے توقع کی جاتی ہیکہ وہ آنے والے بجٹ سیشن میں مطلوب فنڈس کی فراہمی کے ساتھ شرائط کو نرم کرنے کا اعلان کریں گے ۔ لیکن چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو اپنی پڑوسی ریاست آندھراپردیش کے چیف منسٹر میر زادے سے پریشانیاں لاحق ہیں ۔ کیوں کہ اس میرزادے نے تلنگانہ کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔

اصل میں میر زادے کا قصہ آپ تمام نے سنا ہوگا کہ جس نے طویل ریاضت چلہ کشی اور وردِ وظائف کے بعد ہاتف غیبی کی آواز پر یہ فرمائش کی تھی کہ مجھے من و سلویٰ کی ہانڈی نہیں چاہئے ، میری بھرپور خواہش یہ ہے کہ میرے ہمسایہ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو ہانڈی عطا ہوئی ہے اور جس سے صبح دوپہر شام انواع و اقسام کے پرتکلف اور مزیدار کھانے برآمد ہوتے ہیں وہ ٹوٹ جائے تاکہ وہ بھی میری طرح دال روٹی کو ترسے ۔ تلنگانہ کے پڑوسی چیف منسٹر بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی نئی پڑوسی ریاست برقی کو ترسے ، تلنگانہ کے عوام کے گھروں میں اندھیرا چھا جائے ۔ ایک طرف وہ حیدرآباد کو اپنا گھر قرار دیتے ہیں ، دوسری طرف اس گھر کو تاریکی میں ڈبونا چاہتے ہیں ۔ برقی پراجکٹس میں آندھراپردیش حکومت کی یکطرفہ یاجانبداری سے ان دنوں تلنگانہ میں مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اپنی ریاست کے نئے دارالحکومت کے قیام کی تیزی سے تیاری کرنے والے چیف منسٹر کو اپنے پسندیدہ شہر حیدرآباد کو چھوڑنے کی کوئی عجلت نہیں ہے ۔ درحقیقت وہ اپنی جوبلی ہلز رہائش گاہ کو ہی تزئین نو کے ذریعہ مستقل مسکن بنا نا چاہتے ہیں ۔ سیاسی اعتبار سے ان کا یہ بیان تلنگانہ راشٹراسمیتی کو مشتعل کرسکتا ہے ۔ چیف منسٹر اندھراپردیش چندرابابو نائیڈو نے بتایا کہ وہ حیدرآباد میں گزشتہ 30 سال سے مقیم ہیں اورمستقبل میں بھی یہاں رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستوں کے تلگو بولنے والے عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر سے رہنا چاہئے۔ سیما آندھرا یا تلنگانہ کی اصطلاح سے ہٹ کر بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہئے۔ جب چندرابابو نائیڈو کی اس طرح کی مثبت سوچ ہے تو انھیں اپنی ریاست میں تیار ہونے والی برقی کو تلنگانہ میں سربراہ کرنے کیلئے کوتاہ ذہنی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے ابھی اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے کیوں کہ ان کا ایک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ سیما آندھراپردیش کے قائدین اپنا بوریا بستر لپیٹ کر سیما آندھرا کو چلے جائیں۔ چندرابابو نائیڈو شروع سے یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ حیدرآباد کو اس وقت نہیں چھوڑیں گے تاوقتیکہ ان کی پارٹی کو تلنگانہ میں اقتدار مل جائے ۔ کل تک وہ ہندو اور مسلم کو اپنی دو آنکھیں قرار دیتے تھے اب وہ تلنگانہ اور آندھرا کو اپنی دو آنکھیں قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی حیدرآباد میں موجودگی اور آنے والے دنوں میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخاب ان کیلئے ایک غیرمعمولی سیاسی تبدیلی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اگر تلگودیشم نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے 150 کارپوریٹرس میں سے چند حلقوں میں کامیابی حاصل کرلی تو یہ سمجھا جائے کہ شہر میں تلگودیشم کا اثر برقرار ہے

کیوں کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تلگودیشم نے جی ایچ ایم سی حدود میں 24 اسمبلی حلقوں کے منجملہ 15 پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اگر بلدی چناؤ میں تلگودیشم کو خاطر خواہ نشستیں ملتی ہیں تو حیدرآباد میں مستقل قیام کیلئے چندرابابو نائیڈو کے منصوبے کو مضبوطی مل جائے گی ۔ اس لئے وہ اپنی جوبلی ہلز کی 600مربع فٹ والی دو بیڈرومس کی رہائش گاہ کو منہدم کرکے ازسرنو جدید طرز کی ٹکنالوجی سے تعمیر کریں گے ۔ 1990 ء میں تعمیر کردہ یہ مکان منہدم کرکے وہ اس کو دوبارہ بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ اس مکان سے انھیں واستو کے اعتبار سے سیاسی ترقی دی ہے مگر ان کے حریف چیف منسٹر کے سی آر کو اس سلسلہ میں کوئی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دیکھا نہیں گیا ۔ کے سی آر کی خاموشی چندرابابو نائیڈو کے منصوبے پر مہر ثبت کرسکتی ہے ۔ کے سی آر کو چاہئے کہ وہ اپنی پڑوسی ریاست کے ساتھ برقی معاملوں پر فوری بات کریں ۔ آندھراپردیش نے برقی پیداوار میں تلنگانہ کا حصہ دینے سے انکار کیا ہے کہ اپنے حق کے حصول کے لئے چندرشیکھر راؤ کو جدوجہد کرنی ہوگی ۔ لوور سلیرو ہائیڈرو الکٹریشن اور کرشنا پٹنم تھرمل پراجکٹ میں پیدا ہونے والی برقی پر تلنگانہ کا بھی حق ہے تو اس کا حصول ضروری ہے کیوں کہ تلنگانہ کی ترقی کا منصوبہ برقی کی خاطر خواہ سربراہی پر ہی منحصر ہے ۔ شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے کیلئے برقی کی 24 گھنٹے سربراہی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ موجودہ برقی بحران تلنگانہ کو تازہ دم ہونے سے پہلے ہی کمزور کردے گا۔
kbaig92@gmail.com