شہرہ آفاق شاعرہ پروین شاکر ( ہ ) حادثہ چاہیئے زندگی کے لئے

ڈاکٹر محی الدین حبیبی ( اسکالر )
26 ڈسمبر 1994 کو آفتابِ جہاں تاب، نظام قضا و قدر کے تحت غروب ہونے سے پہلے غروب ہوگیا جو تقریباً پون صدی تک شعری دنیا میں ہلچل اور اضطراب پیدا کردیا۔ کاش یہ خورشید خاور ( بلا تخصیص صنف ) غروب نہ ہوتا۔ مروت کرتا ، اندھیرانہ ہوتا۔ بیکلؔ اُتساہی نے کبھی کہا تھا : حادثہ چاہیئے زندگی کے لئے ‘‘ ۔ ہاں ! ایک بلا خیز روح کو پرواز بخشنے والا حادثہ ہوا۔ اور پروین شاکر کی کار اسلام آباد میں ایک بس سے ٹکرا گئی۔ مُراد، پروینؔ کا شہزادہ، اپنی خالہ کو فون کرتا ہے کہ ممی کا حادثہ ہوگیا فوری گاڑی روانہ کرو۔ ان کی ہمشیر گاڑی کے ساتھ خود بھی ہاسپٹل پہنچ گئی جہاں پروینؔ موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ دعائیں ہورہی تھیں، منتیں مانگی جارہی تھیں۔ لیکن ! تھیٹر سے باہر آکر نرس نے ان کی بہن کو پروین کا بٹوہ اور گھڑی وغیرہ واپس دے کر کہا کہ She is no more … یقیناً پروینؔ کی گھڑی ہی نہیں رُکی بلکہ مہ و سال کی گردش رُک گئی۔ شہر میں کہرام سا مچ گیا:۔
پھر یہ کہرام سا کیوں ہے شہر کے لئے خانوں میں پروینؔ کا جاں سے گزر جانا صرف اہلِ خاندان ہی کا غم نہ تھا بلکہ برصغیر کی اُردو دنیا کا حزن و ملال تھا۔ خود کا اُن کا یہ شعر اس بات کی بڑی خوبی کے ساتھ ترجمانی کرتا ہے:
ہائے رے جاں کے گزرنے سے بڑا سانحہ ہے
شوقِ پرواز کا ٹوٹے ہوئے پَر میں رہنا
بڑا المناک اور کربناک دن تھا وہ کہ شعر و ادب کی ایک عہد ساز شخصیت نے ہچکیاں لیں اور جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ فنا فی العشق ہوگئی۔ ساری بلائیں تمام ہوئیں اور بقول غالبؔ ’’ مرگ ناگہانی ‘‘ سے ہمکنار ہوئی۔
لیکن میں جب سوچتا ہوں اور بڑی گہرائی کے ساتھ وِجدانی سطح پر یہ راز کُھلتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کے بغیر بھی مرنا نہیں چاہتی تھیں۔ لیکن وہ ’’ طوافِ آرزو ‘‘ سے محروم ہوگئی۔ راحتِ جاں کے بغیر ہی اس دنیا کے رنگ و بو، اور اس’’ خوشبو‘‘ کو بکھرنا تھا سو وہ بکھر گئی۔ فضاؤں میں تحلیل ہوگئی بقول فیض احمد فیضؔ:
موتی ہو کہ شیشہ ، جام کہ دُر
جو ٹوٹ گیا ! سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جُڑسکتا ہے
جو ٹوٹ گیا! سو چھوٹ گیا
بالیقین وہ ہم سے جدا ہوگئیں لیکن ’’ خوشبو ‘‘، ’’ خود کلامی ‘‘، ’’ انکار ‘‘، ’’ صد برگ ‘‘ اور ’’ ماہِ تمام ‘‘ میں وہ زندہ ہے تابندہ ہے۔ اپنی ’ بے باکی ‘ کے حوالے سے جس کو بعض لوگ خواہ مخواہ ’’ بے حجابی ‘‘ کا نام دیتے ہیں جو نہیں جانتے اور ہم جان بھی نہیں سکتے کہ ایک حساس اور محسوسات بھرپور فنکار کا کرب کیا ہوتا ہے۔ اس کے کربناک بلکہ اذیت ناک وارداتوں کا ہمیں بھلا کیسے علم ہوسکتا ہے۔ یہ تو وارداتِ قلب ہوتی ہیں جو صفحۂ قرطاس پر رقم ہوتی ہیں۔ صہبائے غم جاناں کی یہ پری پیکر پروینؔ پتہ نہیں کس کشِ میکش و کشاکش سے گزری! اُس نے حسیں یادوں کے دامنِ یار کی کتنی بار رفو گری کی۔ کبھی کوئی کترن ہوئی ہوگی کبھی کوئی خواب بننا پڑا ہوگا۔ اس طرح وہ راہی عدم ہوگئی۔ ابتداء سے مسافر تھی مسافر ہی رہی۔ سفر جاری رہا، کبھی رُکی اور کبھی آگے بڑھی: ’’ نمی دانم کُجا رفتم ‘‘ کا حال تھا۔
یہ حادثہ نہ بھی ہوتا تو وہ اپنے شعری، ادبی اور صحافتی سرمایہ کے باعث جاویداں رہتیں۔ اُن کی یاد ہزارہا چاہنے والوں اور قدردانوں کے دلوں میں شاد و آباد رہتی۔ یاد کیا ہے۔ یاد، دراصل کسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ اُس کے پیام کو سراہنا ہے۔ اُس کی باتوں پر صدق و صفا کی مہر ثبت کرنا ہے۔ پروین شاکر نے برصغیر میں بقول انور جلال پوری ہزاروں سال کی نسوانی تہذیب کی انانیت کی ’’ خوشبو ‘‘ تھیں۔ یہ بات انہوں نے دہلی کے ایک مشاعرہ میں تعارف کرتے ہوئے کہی تھی۔ ذاتی طور پر میں ’’ نسوانی انا ‘‘ یا ’’ مردانہ انا ‘‘ کا قائل نہیں ہوں۔ ’’ انا ‘‘ تو بس انسانی ہوتی ہے۔ یہ وصف صرف نوع انسانی سے علاقہ رکھتا ہے۔ کیا علامہ اقبال صرف مَردوں کے لئے ہی اپنا کلام پیش کیا کہ وہ اپنی ’’ خودی ‘‘ کو بلند کریں اور خواتین اس سے کنارہ کش ہوجائیں۔ انہوں نے ہر جگہ ’’ فرد ملت ‘‘ کہہ کر مخاطبت کی ہے۔ ورنہ وہ ’’ مردِ ملت ‘‘ کہہ سکتے تھے۔ بہر حال ’’ نسوانی انا ‘‘ یا ’’ مردانہ انا ‘‘ کی تخصیص نہیں ہونی چاہیئے۔ ’’ انا ‘‘ تذکیر و تانیث میں فرق نہیں کرتی۔ ’’ انا ‘‘ دراصل ایک پیکر وجود ہے جس کا مقصد اپنی انفرادیت اور تشخص کو مختلف مظاہر میں پیش کرنا ہوتا ہے جو ایک فطری طریقہ کار سے اُبھر کر آتی ہے، بالارادہ نہیں ہوتی، لیکن ’’ انا ‘‘ ناز کا مظہر نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اپنے ’’ وجود ‘‘ کا ناز کے ساتھ ’’ نیاز ‘‘ سے جوڑنا بھی ضروری ہے کہ : ’’ منم آل نیاز مند کے بہ تو نیاز دارم ‘‘ ۔ اپنی ’’ قدر ‘‘ کو منوانے کی سعی بھی مناسب نہیں۔ کیا فکر کوئی قدرداں ہوکہ نہ ہو۔جہاں تک سوانحی معلومات کا معاملہ ہے پروینؔ شاکر 1952 میں اس جہان رنگ و بُو میں ایک دلنواز ’’ خوشبو ‘‘ کی طرح شاکر حسین کے ہاں آئیں اور کسے معلوم تھا کہ یہ ’’ خوشبو ‘‘ صد ہزار لوگوں کے شام جاں کو معطر و مظہر کرے گی۔ ابتداً سرسید گرلز کالج سے انٹر کیا پھر جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ پھر وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ 1980 میں ہارٹ فورڈ یونیورسٹی ( امریکہ ) سے ایم بی اے ( فینانس ) کیا۔ وطن واپس لوٹیں۔ وہ انگریزی صحافت سے بھی وابستہ رہیں اور کالم نگار کی حیثیت سے بھی شہرت ملی۔ لیکن ’’ خوشبو ‘‘ جو انہوں نے بکھیردی تھی ان کو اپنے شعری سفر کو جاری رکھنے کے لئے کبھی نسیم سحر تو کبھی بادِ صبا تو کبھی سمندروں کی لہروں سے کھیلتی رہیں اور دنیا سے کہا کہ ’’ میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا ! ‘‘ ۔
آگے بڑھنے اور اپنے کو منوانے کا ذوق و شوق ان کو کبھی نچلے بیٹھنے نہ دیا۔ سیول سرویس کے امتحان میں حصہ لیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔ عجیب اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اس امتحانی پرچہ میں خود اُن کی اپنی شاعری پر 20 نومبر کا سوال بھی تھا۔ پتہ نہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا کیا نہ تحریر کیا ہوگا۔ اس کو ہم ’’ خود کلامی ‘‘ ہی نام دے سکتے ہیں۔ وہ بڑی ذہین و فطین تھیں۔ مقابل کے سراپا کو دیکھ کر خوشنما زیبائش کے پیچھے چھپے ’’ کردار ‘‘ کو بھی بھانپ لیا کرتی تھیں۔ ’’ ظاہر ‘‘ سے ’’ باطن ‘‘ کی شناسائی کا ہُنر انہیں خوب آتا تھا جو ان کی شاعری کا خاص وصف ہے۔ انہوں نے کسی کی کردار کشی نہیں کی لیکن حقیقت کو پیش کرنے میں وہ ’’ بے حجاب‘‘ نہیں ’’ بے باک ‘‘ ضرور تھیں۔ اسی بے باکی نے کئی حاسدین پیدا کردیئے تو انہیں کہنا پڑا :
دشمنوں کے ساتھ مِرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پر پہلا تیر کون ؟
وہ واقعی مملکت سخن کی ایک شہزادی تھیں۔ خدا نے حُسن بھی دیا تھا، اور فن بھی۔ اُن کی ’’ شعریات ‘‘ اُن کے لہجہ اور متن سے علانیہ ظاہر ہوجایا کرتی ہیں۔ اس لئے وہ ’’ خوشبو ‘‘ ، ’’ صدبرگ ‘‘ ، ’’ خود کلامی ‘‘ ، ’’ انکار ‘‘، ’’ کف آئینہ ‘‘ اور ’ ’ ماہِ تمام ‘‘ جیسے شعری جہد کاری نے انہیں ان کا تخلیق کار بنایا۔ حکومت نے انہیں PRIDE OF PERFORMENCE ایوارڈ سے بھی نوازا۔ یہاں یہ موقع ہے اور نہ اخبار کے کالم اس کی اجازت دیتے ہیں ‘ اُن کی شاعری کی قدروں کا تعین کیا جائے۔ ویسے شاعر یا شاعرہ جب شعر کہتی ہے توکہاں لسانیاتی سانچے کہاں شعری ہئیت، بس اِک لئے ہوتی ہے یا بقول شمس الرحمن فاروقی ’’ حاوی لے ‘‘ ہوتی ہے جو شعری سانچوں میں ڈھل جاتی ہے۔ شاعر اپنی واردات قلبی کو مرتسم کرتا ہے اور یہی الفاظوں کا مجموعہ یا ’’ تلفیظ ‘‘ ، شعری تخلیق کا روپ دھار لیتی ہے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا :
نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکش صدا ہو، عجمی ہو کہ نازی
یہ اصوات کا مجموعہ ہی بقول غالب ؔ ’’ گنجینۂ معنی ‘‘ کا طلسم ہوتا ہے جس کے ہر باب کو ایک اسم فتح سے کھولنا پڑتا ہے۔ ایک نوع کی کی معنیات کی کائنات ہوتی ہے جو تخلیق کے مرحلے طئے کرتی ہے۔
کبھی بات خرد سے آگے وجدان تک چلی جاتی ہے جس کو مغنی تبسم نے ’’ لفظوں سے آگے ‘‘ کا نام دیا تھا۔ عقل گُم ہوکر ایک سحر زدہ کیفیت طاہر ہوجاتی ہے۔ حال بے حال ہوجاتا ہے۔ جنون سایہ فگن ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پروینؔ شاکر کا محبوب فرضی نہیں حقیقی تھا بقول سلطانہ صدیق کے کوئی اس طرح شدت کے ساتھ کیسے کہہ سکتا ہے اس کے اشعار میں آرزو، تمنا ، اُمید، انتظار ، خواہش دیدار سب ہی کچھ ہو:
دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے آ ج کہ گھر بھول پڑے وہ
بھولا نہیں دل ہجر کے لمحات کڑے وہ
راتیں تو بڑی تھیں ہی مگر دن بھی بڑے وہ
الفا ظ تھے اس کے کہ سہاروں کے پیامات
خوشبو سی برسنے لگی وہ پھول جھڑے وہ
ازدواجی زندگی ایک المیہ سے گزری۔ انہیں اکیلا ہونا پڑامگر اس کی ایک نشانی ’’ مُراد ‘‘ کی صورت ( جو ان کا شہزادہ ہے ) اُن کے ساتھ رہی جسے وہ بڑے پیار سے ’’ گیتو ‘‘ کہا کرتی تھیں ، اس پر بھی اُن کے خیالات ایک نوع کی صفائی یا صدق بیانی کہی جاسکتی ہے:
گواہی کیسے ٹوٹتی ،معاملہ خدا کا تھا
مِرا اور اس کا رابطہ ہاتھ اور دُعا کا تھا
گلاب قیمت شگوفہ شام تک چکا سکے
عذاب دھوپ کو ہو ! جو قرض صبا کا تھا
بکھر گیا پھول تو ہم ہی سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا
لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھادیا
جزاء وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا
پھر اب ذرا اپنی انانیت کا اظہار کرنے کا انہیں موقع بھی آیا ہے۔
مِرے لہجہ میں غرور آیا تھا
اُس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
عجیب تضاد ہے کہ اعتراف بھی کیا:
کچھ تو تھی میری خطا ورنہ وہ کیوں
اس طرح ترک رفاقت کرتا
اور یہ بھی اُن کا کہنا ہے کہ :
وہ آدمی ہی کُھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرے
اب بھلا گھر چھوڑ کر کیا کرے
شام کے وقت سفر کیا کرے
دبئی کے جشن خمارؔ میں مشاعرہ پڑھتی ہوئی کیفی اعظمی سے مخاطب ہوکر پروینؔ یوں ماورائیت کی بات کی تھی:
ایک حجاب بند اقرار ہے معنی ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دستِ چاہتا ہے
جب وہ اس شعر پر پہنچیں کہ :
ترے پیمانہ میں گردش نہیں باقی ساقی
تری بزم سے اب کوئی اُٹھنا چاہتا ہے
تو وہ اس ’’ بزم شعر ‘‘ سے اُٹھنا چاہتی تھیں لیکن کیفی اعظمی نے اصرار کے ساتھ کہا کہ ’’ پروین! آپ نہیں اُٹھ سکتیں ؟ ‘‘اس عظیم شاعر سے اس قدردانی پر وہ کچھ ادا کے ساتھ شرما بھی گئیں اور تعمیل ارشاد بھی کیا اور ایک تازہ غزل پیش کی۔
تازہ مجنوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسم بہار گلستاں میں ہے
ایک خواب ہے کہ بار دگر دیکھتے ہیں ہم
ایک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
بات طویل ہورہی ہے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ 26 ڈسمبر 1994 کو صرف 42 سال کی عمر میں انہوں نے کار جہاں سے فراغت حاصل کرلی۔ اور حادثہ پیش آیا۔ جان کے تکڑے تکڑے ہوگئے ۔ شاید اسی موقع کے لئے کسی نے کہا ہے کہ :
لوح و قلم کو قتل گاہ میں رکھ دو
یہ حصارِ ستم تو کوئی گرائے گا
ہم تویہی کہیں گے کہ :
باتو نسبت بود اے شد خوبانِ جہاں
اے پری غمزہ ترکانہ مبارک باشد
بالآخر پروینؔ کیلئے اُن کے شعری کاوشوں ، جہد کاری، جدت ادا کے حوالہ سے یہی کچھ کہا جاسکتا ہے کہ :
اے شربتِ دردِ تو دوائے دلِ مَا
آشو بِ سد بلائے تو عطائے دلِ مَا
آفریںصد آفریں پروین:
شادم از زندگی خویش کہ کارِ کرم