شہروں ، ریاستوں کی ترقی کیلئے دیانتداری، حکمت عملی ضروری

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
یوم تاسیس تلنگانہ کا جشن منانے کے دوران مجھے دیارِ غیر امریکہ میں یہ خبر ملی کہ حکومت تلنگانہ آئندہ ماہ 25ہزار ملازمتوں کا اعلان کرے گی۔ وقت کے کیلنڈر نے تلنگانہ کے قیام کا ایک سال پورا کردیا، اس ایک سال میں اپنی علحدہ ریاست تلنگانہ کا خواب دیکھنے والوں نے کیا کھویا کیا پایا، ہرگذرتے دن کے ساتھ محسوس ہورہا ہے۔ حصول تلنگانہ کی جدوجہد میں سرگرم صرف سیاستدانوں کو اپنی چالاک کوششوں کا ثمر مل رہا ہے تو بھولی بھالی عوام کو صرف خواب دکھائے جارہے ہیں۔ عوام بھی اس اُمید کے ساتھ خواب دیکھنے میں مصروف ہیں کہ ان کی قیادت کے ہاتھوں ایک نہ ایک دن پسماندہ تلنگانہ اور ان کی قسمت سنور جائے گی۔ جب جشن تلنگانہ کا آغاز ہونے والا تھا میں نیویارک ( امریکہ ) کیلئے رخت سفر باندھ چکا تھا۔ شمس آباد ایر پورٹ پر صبح کی فلائیٹ کے لئے اپنے لگیج کے ساتھ پہونچا اور ایرلائنس کاؤنٹر پر اپنا پاسپورٹ اور سامان حوالے کیا تو کاؤنٹر پر موجود لیڈی نے لگیج کو تول کر اس میں قواعد سے بڑھ کر سامان ہونے کا عذر پیش کر کے واپس کرنا چاہا لیکن میں نے ایر لائنس کی شرط کے مطابق ہر بیاگ میں صرف 23کیلو گرام سامان رکھ کر اطمینان کرلیا تھا تاکہ میرے ساتھ کوئی اُلجھن نہ ہو۔ اکثر شمس آباد ایر پورٹ پر لگیج کے کانٹے کے معاملہ میں دھاندلیوں کا مشاہدہ رہا ہے۔ اکثر مسافرین کو ایر لائنس کے عملہ کی ہراسانی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بیاگ میں کیلو دو کیلو زائد سامان ہوتا ہے تو انہیں بھرے مجمع میں نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے اس اُلجھن سے بچنے کیلئے گھر سے ہی تیاری کرلی تھی اور ایر پورٹ پر جی ایم آر والوں کی فراہم کردہ تول کرنے والی مشین سے بھی استفادہ کرکے یہ دیکھ لیا تھا کہ میرے بیاگس میں 23 کیلو کا ہی وزن ہے۔ جب ایر لائنس کے کاؤنٹر پر موجود کانٹے نے بیاگ کا وزن 26 کیلو بتایا تو میں بھی ضد پر اڑ گیا کہ یہ ایر لائنس کانٹا بڑی کمپنی کی بدعنوانیوں کی طرح ہے۔ اکثر ایر لائنس والے طیارہ مسافروں کو ہراساں کرنے کیلئے کانٹے میں عرف عام میں ’’ ڈنڈی مارتے ہیں‘‘ تاکہ 3کیلو وزن کے زائد پیسے وصول کئے جاسکیں یا پھر اپنے رشتہ داروں کے لئے خریدے گئے تحفوںکو بیاگ سے نکال کر پھینک دیں۔ اس طرح کی صورتحال سے اکثر شمس آباد ایرپورٹ پر انٹر نیشنل مسافر دوچار ہوتا ہے۔ میرے لگیج میں 23کیلو سے ہٹ کر 26کیلو بتانے پر میری نظروں میں خفگی کے آثار کو دیکھتے ہوئے ایر لائنس کی میڈم نے جو شاید اس کام کیلئے ابھی نئی نئی تھی‘ اپنے ساتھی کاونٹر سے رجوع کیا تو وہاں کے کانٹے پر میرے بیاگس کا وزن 23 کیلو ہی بتایا۔ جب اطمینان کرلینے کے بعد مجھے بورڈنگ پاس دیا گیا۔

یہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کئی مسافروں کو اکثر جی ایم آر انتظامیہ سے شکایت رہتی ہے۔ ایر پورٹ عملہ ہو یا ایر لائنس کے نمائندوں کی زیادتیوں کا شکار ہمارے شہری ہوتے ہیں۔ خاص کر وہ خواتین جو تنہا سفر کرتی ہیں انہیں ستایا جاتا ہے۔ انہیں روانہ کرنے کیلئے آنے والے رشتہ داروں کو بھی اس بات کی کوفت ہوتی ہے کہ ایر لائنس والوں نے لگیج کے معاملہ میں فراڈ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ایر انڈیا کی ایر لائنس نے میرے فرزند کے ساتھ بھی زیادتی کی تھی جس کی وجہ سے ہر بیاگ میں سے سامان اور تحائف نکال دیئے گئے تھے جبکہ یہ بیاگ اچھی طرح جانچ کرکے ہی باندھے گئے تھے۔ خیر بورڈنگ پاس کے بعد ایمیگریشن کاؤنٹر پر فارم کی خانہ پُری کرنی پڑتی ہے۔ ایمیگریشن عملہ صبح کے 5بجکر 20منٹ ہونے کے باوجود 5بجے کی ڈیوٹی کی شفٹ والے موجود ہیں تھے۔ ایک کاؤنٹر اور ہزاروں مسافر ین کی طویل قطار کو دیکھ کر انتظامیہ کی لاپرواہی پر افسوس ہورہا تھا، مگر حیدرآباد میں لیٹ لطیف ہونے کا چلن برقرار ہے تو آفیسرس بھی دھیرے دھیرے آتے گئے اور تمام کاؤنٹرس کھل گئے تو مسافروں کی بھیڑ جلدی جلدی ختم ہوگئی۔ دستاویزات چیک اور اپنی جھڑتی سے گذرنے کے بعدہمیں ایر لائنس کے طیارہ میں بیٹھنے کیلئے لانچ میں انتظار کرنا پڑا کیونکہ کنکٹنگ فلائیٹ پکڑنی تھی جس کے بعد لندن تک پہنچ کر وہاں سے نیویارک کی فلائیٹ میں سوار ہونا تھا۔ حیدرآباد سے لندن تک کے سفر میں زیادہ تر تلنگانہ اور آندھرا کے مسافرین ہوتے ہیں ان میں بعض برطانوی اور امریکی شہری بھی دکھائی دیئے، جو لوگ معذور تھے وہیل چیر پر آرہے تھے انہیں سب سے پہلے طیارہ میں پہنچایا گیا۔ اس کے بعد چھوٹے بچوں کے ساتھ آنے والی ماؤں کو ان کی سیٹ دی گئی بعد ازاں بزنس کلاس والوں کو طیارہ میں سوار کیا گیا۔ جو اکنامک کلاس کے مسافر تھے انہیں ان کی نشست اور نمبر کے اعتبار سے روانہ کیا گیا۔طیارہ میں سوار ہوتے ہی حیدرآباد کی 47ڈگری درجہ حرارت کو باہر ہی چھوڑ دیا گیا۔

طیارہ کے عملہ کو بھی حیدرآباد کی شدید گرمی کا تجربہ تھا اس لئے انہوں نے طیارہ کا ایر کنڈیشنڈ اتنا بڑھادیا تھا کہ ہم کو کپکپی شروع ہوگئی اور ایر لائنس والوں کی فراہم کردہ گرم چادر لپیٹنی پڑی۔ لندن پہونچنے کے بعد یہ کنکٹنگ فلائیٹ کیلئے پھر ایک بار لندن کی سیکورٹی سے گزرنا پڑا۔ یہ ایر پورٹ دنیا کی تمام پروازوں کا اہم مرکز ہے جہاں سے مختلف ممالک کے مسافر گذرتے ہیں۔ سیکورٹی چیک سے گذرنے کے بعد نیویارک کی کنکٹنگ فلائیٹ کے لئے گیٹ نمبر کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ بڑے ہال میں مسافروں سے بھرے ہوئے ماحول کے درمیان مختلف ممالک کے مسافروں، ان کی رفتار اور انداز سفر کا دلچسپ مشاہدہ بھی ہوا۔ ہر مسافر اپنی منزل کیلئے روانہ ہونے مختلف جگہوں پر ویزا، ایمیگریشن پر اپنی فلائیٹ کا نمبر تلاش کررہا تھا۔ ہماری فلائیٹ شام 5.5 بجے تھی جب گیٹ نمبر کا اعلان ہوا تو وہاں سے نیویارک کیلئے پرواز شروع ہوئی۔ نیویارک ایر پورٹ کے تعلق سے مشہور تھا کہ یہاں اچھے اچھوں کی جامہ تلاشی ہوتی ہے۔ سابق میں شاہ رخ خان، سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام اور جارج فرنانڈیز کے ساتھ ہونے والے واقعات کا بھی علم تھا، ہم کو طرح طرح کے خیالات آنے لگے اور جب کیپٹن نے نیویارک ایرپورٹ پر طیارہ کی لینڈنگ کی اطلاع دی تو طیارہ سے نکل کر ایمیگریشن کاؤنٹر تک پہونچنے کی ہرکوئی جلدی کررہا تھا۔ عموماً ایمیگریشن کاؤنٹر پر طویل قطار ہوتی ہے لیکن شمس آباد ایر پورٹ کی طرح کاؤنٹرس پر آفیسرس نہیں تھے بلکہ یہاں پہلے ہی سے آفیسرس موجود تھے اور مسافروں کو کاؤنٹر پر جانے کیلئے ایک لحیم شحیم لیڈی سیاہ فام آفیسر ہاتھ میں ڈنڈا لئے مسافروں کو مختلف کاؤنٹرس کی طرف جانے کا اشارہ کررہی تھی۔ میری باری آنے پر مجھے اشارہ سے کاؤنٹر نمبر 25 کی جانب بھیج دیا اور پرسکون طریقہ سے ایمیگریشن آفیسر کی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سوال جواب کا مرحلہ پورا ہوا۔ انگلیوں کے نشان لئے گئے اور فارم کی خانہ پُری کے بعد اسٹامپ لگاکر مجھے رخصت کردیا گیا۔ طیارہ میں جو بُرے بُرے خیالات آرہے تھے وہ ایمیگریشن کاؤنٹر سے گذرنے کے بعد سب روا ہوگئے۔ لگیج کے لئے بعض ایرپورٹس پر مفت کارٹ ( ٹھیلہ بنڈی ) فراہم کی جاتی ہے لیکن نیویارک والوں کو پیسے کی کمی ہے اس لئے ہر کارٹ کے لئے 6ڈالر مشین میں ڈال کر حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ایک کارٹ لے کر اپنا سامان لے کر جب ہم باہر آئے تو ہمارے فرزند لینے آئے تھے۔

نیویارک شہر دنیا کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے۔بلند وبالا عمارتیں بنانے والے ان لوگوں نے اپنے شہریوں کے لئے ہر آرام کا خیال رکھا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن نظام شاندا ر ہے اور زیر زمین ٹرینوں کا جال پھیلایا گیا ہے اس لئے یہاں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا شہری بھی ٹرین کے ذریعہ اپنی منزل تک آسانی سے پہونچتا ہے۔جس نے کار کا استعمال کیا اسے وقت ضائع کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے ملک میں انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کے حوالے سے بھی بڑے محتاط ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میان بٹن پہنچ کر مجھے 9/11 کے ان تمام مہلوکین کے نام دیواروں پر کندہ دکھائی دیئے ان ناموں کے عوض گوروں نے مسلم ملکوں میں جن لاکھوں بے گناہ شہریوں ، معصوم بچو ں اور خواتین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ ٹوئن ٹاور مہلوکین کے ناموں کے ہر ایک نام پر بے گناہ انسانوں کے خون کی دردناک لالی ضرور جھلک رہی تھی اور یہ نام جب تک مین ہٹن کی درودیوار دکھائی دیں گے۔ گوروں کے نائین الیون کے مہلوکین کی یادگار بنا کر ملکوں پر کئے گئے اپنے مظالم اور جارحیت کی داستانوں کو بھی زندہ رکھا ہے۔ مین ہٹن اور اس کے اطراف و اکناف میں بلند و بالا 125 یا اس سے زائد عمارتیں آسماں کو چھو رہی تھیں۔ میں جس وقت یہاں پہنچا موسمی پیش قیاسی تھی کہ آئندہ چند گھنٹوں میں شدید بارش ہوگی۔ میں نے شہر حیدرآباد کی موسمی پیش قیاسی کی طرح اس کو بھی نظرانداز کردیا لیکن حیدرآباد میں ہونے والی موسمی پیش قیاسی کے مطابق بارش نہیں ہوئی مگر یہاں کی پیش قیاسی درست ثابت ہوئی اور اگلے 48 گھنٹے تک طوفانی بارش کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں کی پیش قیاسی کرنے والوں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ کتنے گھنٹے تیز بارش ہوگی اور کتنی دیر تک بارش رکے گی اور پھر کب بارش شروع ہوگی۔ یہاں کے لوگ اپنے محکمہ موسمی پیش قیاسی پر اتنا بھروسہ کرتے ہیں کہ ان کی پیش قیاسی کے مطابق ہی اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ چھتریوں اور برساتی کا استعمال کرنے کیلئے ساتھ رکھتے ہیں۔ نیویارک کا ڈان ٹاؤن وال مارک اسٹاک ایکسچینج اور ٹائمس اسکوائر کے علاقہ ترقی کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ ان عمارتوں میں موجود انسانوں اور یہاں کی گلیوں، ٹرینوں، پلیٹ فارمس پر دوڑتے گوروں کی زندگیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی حاصل کرنے کیلئے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جہاں اصول نہیں ہوتے وہاں ترقی رینگتی ہے۔

لبرٹی کا مجسمہ دیکھنے کے بعد ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ کو لے جانے والی کشتیوں کا لطیف سفر، کہر میں ڈوبی عمارتوں اور ان عمارتوں اور ان عمارتوں سے نکلنے والی روشنیوں کا منظر آنکھوں کو خیرہ کررہا تھا۔ نیویارک شہر ہمیشہ جرائم کی دنیا کا مرکز سمجھا تھا لیکن اس شہر کے ایک میٹر روڈ جیولاتی نے جرائم پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات کئے اور کامیاب رہا اس کے اقدامات اور طریقوں کے ذریعہ ہی آج تک عمل کرتے ہوئے نظم و نسق کو سنبھالا گیا ہے۔ 1990ء کے بعد سے جرائم کا گراف کم ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں 2 لاکھ 8 ہزار 813 ڈکیتیاں ہوئی تھیں۔ 2605 قتل، 5368.1 جنسی حملے، 5 لاکھ 65 ہزار سے زائد چوریاں،لاکھوں روپئے نقب زنی کی وارداتیں، چھینا چھٹی کے وارداتیں ہوتی تھیں لیکن اب پولیس کی پٹرولنگ کا طریقہ کار جرائم پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ نیویارک کے میئر کی اس حکمت عملی کو تقریباً شہروں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت کے میئر بل ڈی بلاسو نے یکم جنوری 2014ء سے جائزہ لیا ہے، وہ اس شہر کے 109 ویں میئر ہیں۔ شہروں کی ترقی اور شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے سیاستدانوں اور بیوریوکریٹس کے علاوہ ہر سرکاری کرمچاری کو اپنے فرائض کا خاص خیال رہنا ہی ترقی کی زندہ علامت ہوتی ہے۔ میں جس بنگلے میں ٹھہرا تھا وہ ہندوستانی پنجابی کی عمارت تھی۔ بتایا جاتا ہیکہ وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے نیویارک میں گذشتہ 25 سال سے کام کرکے دولت کمائی ہے۔ اس وقت نیوجرسی اور نیویارک میں اس کی 9 ذاتی عمارتیں ہیں اور بڑے بڑے ٹرکس کا مالک بھی ہے۔ امریکہ میں ٹرکس کا مالک ہونا متمول ہونے کی نشانی ہے۔ نیویارک میں شب برأت گذارنے کے بعد دوسرے دن شکاگو کی فلائیٹ پکڑنی تھی۔ شکاگو پہنچنے اور وہاں کے مشاہدوںکا ذکر جاری رہے گا۔ جڑواں شہر دی نیویارک اور نیوجرسی میں تلگو عوام زیادہ ہیں۔ تلنگانہ کے لوگوں کو بھی نیویارک کے میئر اور آفیسرس کی طرح دیانتدار نظم و نسق کی امید ہے۔
Kbaig92@gmail.com