شکست بدر کے بعد سریہ زیدؓ بن حارثہ میں ہونے والے نقصانات پر قریش تلملا اٹھے

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس ،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اور پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کے لکچرس

حیدرآباد ۔ 23 ڈسمبر ۔ ( پریس نوٹ) قریش اور دیگر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لئے قریش کے سرداروں نے شاعروں کا بھی استعمال کیا ۔ ان شاعروں نے مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھارنے والے اشعار کہے اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔تحریص اور ترغیب کے علاوہ قریش نے ڈرا دھمکا کر بھی بہت سارے لوگوں کو اپنے ساتھ کر لیاتھا۔ اس دوران غزوہ سویق سے بے نیل و مرام فرار اختیار کرنے والے ابو سفیان نے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف مجتمع کرنے میں سرگرم حصہ لیا۔ابھی قریش غزوہ بدر میں شکست کی انتقامی جنگ کا سامان کر ہی رہے تھے کہ سریہ زید بن حارثہؓ سے قریش کو جو زبردست نقصان پہنچا اس نے گویا جلتے پر تیل کا کام کیا۔ قریش اس واقعہ پر بلبلا اٹھے اور بہ عجلت ایک فیصلہ کن جنگ کرنے کے لئے اپنی تیاریوں اور کوششوں کو تیز کر دیا۔ مسلمانوں کے خلاف انتقامی جنگ کے لئے قریش کی سرگرمیوں اور پر جوش تیاریوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس بن عبد المطلبؓ نے ایک مکتوب میں تفصیل سے لکھا اور حضورانورؐ کے پاس بھیج دیا۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۳۳۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات قبل غزوہ احد اور ان کے اثرات پر سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11:30 بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسولؐ اللہ حضرت جمیل بن معمر ؓؓ کے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کئے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے اپنے خیر مقدمی خطاب میں دعوت حق کے مرحلہ وار اور قوی اثرات پر موثر اور جامع خطاب کیا۔ مولانا مفتی سید شاہ محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری اور ایک حدیث شریف کا تشریحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے علم فقہ کی اہمیت پر اہم نکات پیش کئے بعدہٗ انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۰۶۱‘ واں سلسلہ وارلکچر دیا۔ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوے ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت بتایا کہ حضرت جمیل بن معمر ایک عرصہ تک شرف اسلام سے دور رہے ۔جب حضرت عمرفاروق ؓ نے اسلام قبول کر لیا تو ان کے قبول ایمان کی اطلاع کے عام کرنے کے ضمن میں حضرت جمیل بن معمرؓ پیش پیش تھے جو ںہی انھیں معلوم ہوا کہ حضرت عمر بن خطابؓ مشرف بہ ایمان ہو چکے ہیں تو وہ سیدھے سردار ان قریش کے مجمع میں جا پہنچے اور انھیں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی خبر دی۔اس وقت تک حضرت جمیل بن معمر اپنے پرانے عقائد پر ہی تھے لیکن فتح مکہ میں خود بھی دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے۔ اس ضمن میں ایک اور روایت ملتی ہے کہ حضرت جمیل بن معمرؓ فتح مکہ سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے اور رسول اللہؐ کی عنایات خاص سے بہرہ مند رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت جمیل ؓ قریش کے خاندان جمحی سے تعلق رکھتے تھے ان کا شجرہ نسب حذافہ بن جمح سے جا ملتا ہے۔ جب سے اسلام قبول کیا پوری استقامت کے ساتھ اس پر قائم رہے اور دین کی خدمت ، شوکت، تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا غزوہ حنین میں حفاظت و حمایت دین میں ان کی تلوار کا چمکنا ان کے غیر معمولی اور پرجوش جذبہ کا آئینہ دار تھا۔ ان کے شجاعانہ جواہر ہمیشہ کے لئے اسلام کے واسطے وقف ہو گئے۔ اسی معرکہ حنین میں انھوں نے زہیر بن ابجر کوکیفر کردار تک پہنچایا تھا۔ حضرت جمیلؓ بن معمر خوف الٰہی سے ہمیشہ لرزاں رہا کرتے اور اطاعت الٰہی میں سدا سرگرم رہتے۔ محبت رسول اللہؐ سرمایہ حیات تھا۔ ذات اطہر ؐ سے سچی وابستگی نے انہیں اتباع سنت کا پیکر بنا دیا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے ساتھ خاص تعلق اور چاہت تھی۔ عہد فاروقی میں معرکہ مصر میں ان کا نام نمایاں طور پر ملتا ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ بھی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ حضرت جمیل بن معمرؓ نے طویل عمر پائی اور زندگی کی زائد از ایک سو بہاریں دیکھ کر اس دارفانی سے کوچ کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہیؐ میں حضرت تاج العرفاءؒ کا سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۳۳۴‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میںجناب محمد مظہر اکرام حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔