شوہر کی جائیداد میں دوسری بیوی کا نصف حصہ طلب کرنا

سوال :     احقر کے دو بیویاں ہیں جن کے پاس میری دلوائی ہوئی ملکیت موجود ہے۔ عرض کرنا یہ ہے کہ میری چھوٹی بیوی یہ کہتی ہے کہ میری والد کی جائیداد سے اسے آدھا حصہ چاہئے ۔ ازروئے شرع میری بیوی کا مطالبہ کس حد تک درست ہے ؟ کیا م جھ پر ان کا مطالبہ پورا کرنا لازم ہے؟
محمد کامران، ریڈ ہلز
جواب :   آپ، والد کے متروکہ سے حاصل شدہ حصۂ رسدی کے مالک و مختار ہے ۔ آپ کو اپنی ملکیت میں ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار ہے ۔  آپ کی حین حیات آپ کی جائیداد میں آپ کی بیگمات  اور اولاد کا کوئی حق و حصہ نہیں، کیونکہ وراثت کا حق بعد انتقال مورث ہوتا ہے، زندگی میں نہیں ۔
پس آپ کی دوسری بیوی کا دعویٰ کہ آپ کے حصہ رسدی کا نصف ان کو دیا جائے شرعاً باطل ہے شرعاً اور قانوناً وہ اس کی مجاز نہیں۔
جنین کا وارث ہونا
سوال :  بچہ کی پیدائش سے قبل اس کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ چچا سسر کا کہنا ہے کہ جائیداد میں بچہ کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ آپ سے اس مسئلہ کا قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب دینے کی گزارش ہے؟
محمد برہان ، ای میل
جواب :  بیوی حاملہ ہو اور شوہر کا انتقال ہوجائے اور بعد وضع حمل لڑکا تولد ہو تو وہ لڑکا اپنے والد کی جائیداد میں وارث قرار پائے گا۔ اسی طرح لڑکی تولد ہو تو وہ بھی وارث ہوگی۔
اہلسنت والجماعت کی پہچان؟
سوال :   اہل سنت والجماعت سے مراد کیا ہے، اس کی تشریح اور تحقیق بیان کریں تو مہربانی ہوگی ۔ مجھے اہلسنت والجماعت کے عقائد معلوم ہیں لیکن میں اس کی تاریخ جاننا چاہتا ہوں، کب سے یہ اہل سنت والجماعت کا  لفظ مسلمانوں میں عام ہو، اس مذہب کی تائید و حمایت کرنے والے کون رہے۔ براہ کرم مستند کتابوں کے حوالے سے بیان کیا جائے تو عین نوازش ۔
عبدالقیوم، پھسل بنڈہ
جواب :  اہل السنت کے لغوی معنی ہیں : سنت والے لوگ ۔ سنۃ لغوی اعتبار سے راستہ ، عادات ، رسم اور شریعت کو کہتے ہیں۔ اس اصطلاح سے مراد وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً دیا یا ان سے منع فرمایا (تاج ، بذیل مادہ سنۃ) ۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ ’’ سنۃ النبی‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وہ  طریق ہے جس پر آپ عملی زندگی میں کاربند رہے۔ سنت کی ضد بدعت ہے۔ سنت میں خلفائے راشدین کی سنت بھی شامل ہے  (ابو داؤد، 4 : 281 )۔ حدیث کے الفاظ ہیں: علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (احمد : المسند ، 4 : 126 ، ابو داؤد ، کتاب السنۃ، باب 5 ) ۔
اہل السنت والجماعت کی ترکیب کے بارے میں علماء نے صراحت کی ہے کہ’’ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی طرز زندگی اور طریق عمل کو سنت کہتے ہیں۔ جماعت کے لغوی معنے تو گروہ کے ہیں، لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابہ ہے‘‘۔ اس لفظی تحقیق سے اہل السنت والجماعت کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے، یعنی یہ کہ اس فرقے کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات ، اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت صحیحہ اور صحابۂ کرام کے آثار ہیں ۔  البغدادی نے ایک حدیث کی بناء پر اہل السنت کی ایک صفت یہ لکھی ہے : الذین ھم ما علیہ ھو و اصحابہ ، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرتؐ کے طریقے (سنت) اور آپ ؐ کے اصحاب کے مسلک پر ہیں۔ البغدادی نے اہل السنۃ والجماعۃ ہی کو ’’ فرقۂ ناجیہ‘‘ ۔ قرار دیا ہے۔
مصلحین امت  نے ہر دور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسی ہی ایک کوشش اہل السنۃ والجماعۃ کی جامع اصطلاح ہے، جس کے دائرے میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو لانے کی کوشش کی گئی۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی اصطلاح لفظی اعتبار سے اگرچہ دیر کے بعد ظہور میں آئی مگر عملی طور پر ملت کی غالب اکثریت آغاز ہی سے اس پر کار بند تھی اور ایسے مصلحین کی بھی کمی نہیں رہی جو ملت کی وحدت کے لئے ہمہ تن سرگرم رہے، مثلاً الاشعری سے پہلے المحاسبی (م 243 ھ / 857 ء) نے اہل سنت کے عقائد کی تا ئید کی اور اس کے لئے علم کلام کو استعمال کیا ۔ ہر کلمہ گو کو تکفیر سے محفوظ رکھنے کا خیال بھی  ہمیشہ موجود رہا (الشہرستانی : الملل والنحل ، ص 105)
تیسری / چوتھی صدی ہجری میں اہل السنت والجماعت کی تائید و حمایت کے لئے اور معتزلہ کے ردعمل کے طور پر دو طاقتور تحریکیں اٹھیں۔ ان میں سے ایک تو اشاعرہ کی تحریک تھی، جس کے بانی ابوالحسن الاشعری تھے۔ دوسری تحریک ماتریدیہ کی ہے، جس کے بانی ابو منصور الماتریدی (م 333 ھ / 944 ء) تھے ۔ دونوں تحریکوں کا مقصد ایک ہی تھا، یعنی اہل السنت والجماعت کے عقیدے کی حمایت ۔ الاشعری اور الماتریدی بہت سے بنیادی مسائل میں مکمل اتفاق رکھتے تھے، صرف چند ایک فروع میں اختلاف تھا، مگر یہ معمولی نوعیت کا تھا (ظہر الاسلام ، 4 : 92 ) ۔ الماتریدی کے کلامیہ مسلک کی تائید و حمایت جن ممتاز حنفی علماء نے کی ان میں علی بن محمد البزدوی (م 413 ھ) ، علامہ تفتازانی (م 793 ھ ) ، علامہ نسفی (م 537 ھ) اور علامہ ابن الھمام (م 861 ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح امام اشعری کے کلامیہ مسلک کی تائید میں بھی علماء کی ایک بڑی جماعت میدان میں آئی۔ ان میں امام ابوبکر الباقلانی (م 403 ھ) ، عبدالقاہر البغدادی (م 429 ھ) ، علامہ ابن عساکر (م 492 ھ) ، امام غزالی (م 505 ھ) اور امام فخرالدین الرازی (م 606 ھ) کے نام بڑی اہم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں (ظہر الاسلام ، 4 : 73 )
اہل السنت والجماعت کے عقائد کو خلفا و سلاطین کی حمایت و سرپرستی بھی حاصل رہی۔ عباسی خلفاء میں سے خلیفہ المتوکل علی اللہ کے دور میں اہل سنت کے مسلک کا حکومتی سطح پر فروغ ہوا اور اس مسلک کو سرکاری سرپرستی اور حمایت حاصل ہوئی۔ اسی لئے المتوکل کو محی السنۃ (سنت کو زندہ کرنے والے) کا خطاب ملا (مُرُوج الذھب ، 2 : 369 ) ۔ مصر اور شام میں سلطان صلاح الدین ایوبی (م 589 ھ / 1193ء) اور ان کے وزیر القاضی الفاضل نے مسلک اہل السنت والجماعۃ کو سرکاری مذہب کی حیثیت دی۔ بدعات کو ختم کرنے کے لئے فرمان جاری کئے گئے اور مدارس میں مالکی و شافعی فقہ کی تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ظہرالاسلام ، 4 : 97 ) ۔ اسی طرح مغربی افریقہ اور اندلس میں بھی مسلک اہل السنت والجماعت کو سرکاری حمایت حاصل ہوئی۔ محمد بن تومرت (522 ھ / 1128 ء) الموحدون کا سربراہ تھا اور اس نے امام غزالی کی خدمت میں زانوے تلمذتہ کیا تھا ۔ جب خدا نے اسے اقتدار بخشا تو اس نے جو کچھ اپنے استاد سے سیکھا تھا اسے عملی طور پر نافذ کیا (ظہر الاسلام ، 4 : 98 )۔ دولت غزنویہ کے سربراہ سلطان محمود غزنوی نے بھی مسلک اہل السنۃ والجماعت کی پر زور حمایت کی اور اسے سرکاری مسلک کی حیثیت دے کر تقویت و تائید بخشی (ظہرالاسلام ، 4 : 99 )
تدفین کے وقت دنیوی گفتگو کرنا
سوال :  عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کوئی خاص ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے ؟
حافظ زکریا، مراد نگر
جواب :  نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اسی طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح ایک دن اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی۔ اور وہ شخص جو مانباپ کا منظور نظر تھا ، اولاد کا محبوب تھا، دوست و احباب کا دلعزیز تھا ، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و ا حباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے پھر واپس چلے جائیں گے ۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ بس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا ۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی تر غیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔
بناء بریں حاشیۃ الطحطاوں علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص لا  یعنی بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے ۔ تاہم بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کا خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع  الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکراللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر۔
خلع کے بعد دوبارہ نکاح
سوال :  میاں بیوی آپسی رضامندی سے خلع حاصل کرنے کے بعد ایک دوسرے سے اندرون مدت ایک ہفتہ رجوع ہوسکتے ہیں کیا ؟
کبیرالدین، ٹولی چوکی
جواب :   شوہر نے بیوی کی درخواست خلع کو قبول کر کے ایک طلاقِ بائن دی تھی (تین نہیں) بعد ازاں وہ دونوں راضی ہوں تو اندرون عدت (تین حیض)یا بعد  ختم عدت جب چاہیں دوبارہ عقد کرلے سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاق کا حق رہے گا۔
عقیقہ میں چاندی خیرات کرنا
سوال :   اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کا سر منڈھانے کے بعد ان کے بال کے وزن کر کے اتنے مقدار میں چاندی خیرات کی جاتی ہے ۔ شرعی لحاظ سے چاندی خیرات کرنا کیا حکم رکھتا ہے ؟
نام…
جواب :  عقیقہ کی حجامت کے بعد چاندی یا سونے کو بالوں سے وزن کر کے فقراء کو دنیا مستحب ہے : فتاوی شای جلد 5 ص : 231 میں ہے : و یستحب ان یحلق رأسہ و یتصدق عند الائمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا