شوہر کا بیوی کو ’’ماں‘‘ کہنا

سوال : ایک اہم مسئلہ میں میں آپ کو خط لکھ رہی ہوں، امید کرتی ہوں کہ آپ جلد از جلد اس کا جواب دیں گے ، کیونکہ ہم اس مسئلہ میں کافی پریشان ہیں ۔
مسئلہ یہ ہیکہ میرے شوہر اکثر و بیشتر مجھ کو عام حالات میں’’اماں‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ نہیں اماں‘‘ ’’ہو اماں‘‘، ’’پانی لاؤ اماں‘‘، ’’یہ رکھو اماں‘‘ اس طرح عام گفتگو کے دوران وہ اس طرح کے الفاظ ادا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے قریبی عزیز نے ان کی زبان سے یہ جملہ سنا تو انہوں نے فوری ٹوک دیا کہ اس سے تم توبہ کرو، اس کا کفارہ ادا کرو، ورنہ بیوی تم پر حرام ہوجائے گی۔ میرے شوہر نے کہا کہ میں اس طرح کہتے رہتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ بیوی تم پر پہلے حرام ہوچکی ہے۔ اس واقعہ کے بعد سے ہم دونوں بہت پریشان ہیں، مجھکو دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ براہ کرم شریعت کی روشنی میں اس کا حل اور کفارہ بیان کریں اور جو گزرچکا ہے اس کی معافی کیلئے کوئی راستہ بیان کیجئے۔

نام…
جواب : شرعاً بیوی کو کسی ایسی عورت سے تشبیہ دینا جواس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو (مثلاً : ماں ، بیٹی ، بہن سے) ظہار کہلاتا ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ ’’تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہے‘‘ تو اس سے ظہار ثابت ہوگا۔ بیوی شوہر پر حرام ہوگی اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ’’ تو میری ماں ہے‘‘ یا ’’تو میری ماں کی طرح ہے‘‘ اور اس جملہ سے اسکی نیت بیوی کی عزت ہو یا کچھ نیت نہ ہو، محض روز مرہ کے استعمال کی طرح ہو یا ازراہ ملا طفت استعمال کرے تو اس سے ظہار نہیں ہوتا اور نہ کوئی حرمت لازم آتی ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 507 میں ہے : لو قال لھا انت امی لا یکون مظاھرا و ینبغی أن یکون مکروھا و مثلہ أن یقول یا ابنتی و یا اختی و نحوہ۔ پس صورت مسئول عنہا میں شوہر نے اپنی بیوی کو ’’ نہیں اماں‘‘، ہو اماں‘‘ و دیگر مذکور السؤال کلمات کہا ہے تو ان الفاظ سے میاں بیوی کے درمیان کوئی حرمت نہیں آئی اور نہ اس کا کوئی کفارہ ہے اور نہ توبہ کی ضرورت ہے ۔ البتہ اس طرح زبان سے الفاظ ادا کرنا کراہت سے خالی نہیں، آئندہ احتیاط کریں۔

شوہر کا نماز نہ پڑھنا
سوال : میں بچپن سے صوم و صلوٰۃ کی پابند ہوں، شادی کے بعد بھی ہمیشہ نماز، روزہ ، گوشہ پردہ کا اہتمام کرتی آرہی ہوں، لیکن میرے شوہر نماز کا اہتمام نہیں کرتے، شادی کے بعد جب میں نماز کے بارے میں کہتی تھی تو وہ کبھی کبھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے میری بات سننا بھی چھوڑ دیا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اگر میں نماز کے بارے میں کہتی ہوں تو ہم دونوں میں جھگڑا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے میں نے ان کو نماز کے بارے میں کہنا ہی چھوڑ دیا ۔ مجھے آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ کیا مجھے نماز کی ترغیب نہ دینے پر گنا ہوگا یا کیا حکم ہے ۔ اسی طرح میرے بھائی کی اہلیہ بھی نماز نہیں پڑھتی، بھائی سمجھا سمجھا کر تھک گئے آخر میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیئے ۔ کیا بیوی نماز نہ پڑھے تو شوہر سے باز پرس ہوگی یا نہیں ؟
عنبر۔ نیو ملے پلی

جواب : نماز ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض ہے ، اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے ۔ اس لئے سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود نماز کا اہتمام کریں اور دوسروں کو بھی نماز کی ترغیب دیں۔ بیوی اگر نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو ترک نماز پر زجرو تو بیخ کرے اور نماز کے اہتمام کی تلقین کرے اور اگر شوہر نماز سے متعلق لاپرواہ ہو تو بیوی کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کو حسن و خوبی سے نماز کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو بیان کرے اور ترک نماز کی وعیدیں اور اس کے نقصانات کو اجاگر کرے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر عاقل و بالغ شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے ، شوہر کے عمل سے متعلق بیوی سے اور بیوی کے عمل سے متعلق شوہر سے سوال نہیں ہوگا۔ البتہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنے) سے متعلق باز پرس ہوگی اور جو امر بالمعروف کے فریضہ کو ادا کردے وہ بری الذمہ ہے۔ اگر بیوی یا شوہر کو نماز کی تلقین کرنے پر جھگڑا ہونے کا امکان ہو ، شوہر کی تلقین پر بیوی کے عمل نہ کرنے کا یقین ہو اس وجہ سے وہ امر بالمعروف کو ترک کردے تو اس سے باز پرس نہیں ہوگی ۔ تاہم موقعہ محل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترغیب دینی چاہئے ۔ رد المحتار جلد اول کتاب الطھارۃ کے اختتام پر مطلب فی الأمر بالمعروف میں ہے : وان علم انہ لا یتعظ ولا ینزجربالقول ولا بالفعل ولو باعلام سلطان اوزوج او والدلہ قدرۃ علی المنع ‘ لا یلزمہ ولا یاثم بترکہ لکن الامر والنھی افضل۔

دوران عدت مہندی لگانا
سوال : نومبر میں ہمارے عزیز کا انتقال ہوا ، وہ بہت بیمار تھے ۔ دو سال سے ان کے افراد خاندان نا امید ہوچکے تھے لیکن قضاء و قدر کے سامنے سب عاجز و بے بس ہیں۔ ان کی سالی کی شادی فروری کے پہلے ہفتہ میں طئے ہے۔ لڑکا بیرون ملک سے آرہا ہے اور لڑکی کی بہن یعنی مرحوم کی بیوہ عدت میں ہے اور اس وقت تک بھی ان کی عدت ختم نہیں ہوگی۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ بیوہ اپنی عدت وفات کے آخری ایام میں مہندی وغیرہ لگاسکتی ہے یا نہیں ؟
محمد عبدالوحید، ملک پیٹ
جواب : بیوہ کو عدت کے دوران زیب و زینت اور خوشبو و غیرہ کا استعمال منع ہے اور مہندی کو بھی خوشبو اور زینت میں شامل کیا گیا ہے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت گزارنے والی خاتون کو مہندی کا خضاب لگانے سے منع کیا ہے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی المعتدۃ ان تختضب بالحناء (ابوداود فی السنن کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ المعتدۃ فی عدتھا۔اور ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہندی کو خوشبو قرار دیا ہے ۔ ’’الحناء طیب‘‘ ۔ لہذا بیوہ کو ایام عدت کے اواخر میں بھی مہندی لگانے کی شرعاً اجازت نہیں رہے گی۔
بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرنا
سوال : ہمارے معاشرہ کا ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے ‘ بیوی کے انتقال کے بعد جب مرد حضرات دوسری شادی کرتے ہیں تو پوری اولاد دشمن ہوجاتی ہے ۔ باپ کو کافر یا دنیا کا ذلیل ترین انسان سمجھتے ہیں ۔ جب کسی کا شوہر انتقال کرجاتا ہے تو بیوہ کی خدمت بہو بیٹیاں یا کوئی خاندان کی دوسری عورت کرسکتی ہے اور کرتی ہے ۔ جبکہ مرد حضرات کی خدمت خود ان کا بیٹا نہیں کرسکتا اور نہ کرتا ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی مرد دوسری شادی کرتا ہے تو شرعی احکامات کی روشنی میں کیا یہ عمل غلط ہے ۔ براہ کرم تفصیلی جواب دیں تاکہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط فہمی دور ہوجائے اور راحت ملے ۔

محمد سلیم الدین ، اشرف نگر
جواب : بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کا دوسری شادی کرنا شرعاً معیوب نہیں ‘ مسلم معاشرہ میں اس طرح کا رجحان قابل اصلاح ہے ۔ اگر کوئی شخص اس طرح دوسری شادی کرے تو اس کے افراد خاندان کو اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لانی چاہئے۔ تاہم اولاد کو جو اندیشے رہتے ہیں اس کو ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔

میت کا دیدار
سوال : ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ، نماز جنازہ کے بعد بعض قریبی رشتہ داروں نے میت کے دیدار کی خواہش ظاہر کی ، جس پر میت کا کفن کھولکر میت کا دیدار کرایا گیا ۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ مسجد کے مصلیوں نے بھی دیدار کیا، مگر ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ جب نماز جنازہ ادا کردی جاتی ہے تو پھر میت کا دیدار نہیں کرایا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ۔
محمد آصف، مانصاحب ٹینک
جواب : مسجد میں نماز جنازہ کے بعد میت کے کفن کو کھولکر میت کا دیدار کرانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ البتہ بعد تدفین یہ عمل مکروہ ہے ۔ عالمگیری جلد 5 ص : 351 میں ہے : لا بأس بأن یرفع سترالمیت لیری وجھہ وانما یکرہ ذلک بعد الدفن کذا فی القنیۃ۔

اکرام مؤمن، اخوت و ہمدردی
سوال : آپ کے اس کالم میں شرعی مسائل اور اس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی کی جاکر اسلامی نقطہ نظر سے رہبری کی جاتی ہے۔ آج مسلمان میں بداخلاقی، مفاد پرستی ، خود غرصی ، کوٹ کوٹ کے بھر چکی ہے ۔ دوسروں کے کام آنا ، ہمدردی کرنا ، خیر خواہانہ جذبہ رکھنا ناپید ہے ۔ ایک دوسرے کی شکایت کرنا ، احترام کے خلاف گفتگو کرنا، توہین کرنا عام ہوتے جارہا ہے ۔ ان حالات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں مذکورہ احوال پر رہبری فرمائی جائے تو بہت بہتر ہے ؟

خلیل احمد، بازار گارڈ
جواب : اسلام میں اکرام مومن کی کافی اہمیت ہے۔ دوسروں سے متعلق حسن ظن رکھنا اور اچھا سلوک کرنا اخلاقی فریضہ ہے ۔ دوسروں کیلئے آپؐ کے دل میں ہمیشہ ہمدردی اور مہربانی کے جذبات موجزن رہے ۔اس مسئلہ میں آپؐ کے نزدیک اپنے بیگانے ، آزاد اور غلام کی کوئی تمیز نہ تھی ۔ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے : ’’ میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہوجائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں ‘‘ (ابو داؤد : السنن ، 183:5 ، حدیث 4860 : الترمذی 71:5 ، حدیث 3896 ، مطبوعہ قاہرہ 1965 ء) ۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے دو افراد کے متعلق آپؐ کو کوئی شکایت پہنچائی ۔ جسے سن کر آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؐ نے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو کنایۃً فرمایا کہ ’’ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو ‘‘ (الترمذی ، محل مذکور ، البخاری ، 127:4 ) ۔ اس کے برعکس آپؐ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ دوسروںکے حق میں اچھی باتیں کیا کریں۔ ایک موقع پر فرمایا : ’’ لوگوں کی میرے سامنے سفارش کرو تاکہ تم اجر پاؤ اور اللہ ا پنے نبیؐ کی زبان پر جو چاہے فیصلہ جاری کردے (البخاری ، الادب ، مسلم (البر) ، 1026:4 ، حدیث 2627 ) ۔ یہی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ تھا کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ میں نے اللہ سے پختہ عہد لے رکھا ہے کہ اگر (ولو بالفرض) میری زبان سے کسی کے حق میں کوئی غیر مفید دعا یا جملہ نکل بھی جائے

تو اللہ تعالیٰ متعلقہ فرد کو اس کے بدلے میں رحمت ، دل کی پاکیزگی اور روز قیامت میں قربت عطا فرمادے (مسلم ، 2000:4 ، حدیث 2600 تا 2604 ) ، آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے ، بلکہ صحیح اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقہ ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے‘‘۔ اسی بناء پر آپؐ کے نزدیک نیکی کا مفہوم حسنِ خلق ، یعنی دوسروں سے اچھا برتاؤ تھا ۔ آپؐ کا ارشاد ہے ’’ البر حسن الخلق ‘‘ (مسلم ، 1980:4 ، حدیث 2552 ) ۔ آپ نے فرمایا:’’ ا کمل المؤمنین ایماناً احسنھم خلقا ‘‘ (الترمذی : السنن : 3 ، 469 ، حدیث 1162 ، ابو داؤد 6:5 ، حدیث 4682 )۔ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طر ز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ، فرمایا ’’ ان خیارکم احسنکم اخلاقاً ‘‘ (البخاری ، 121:4 ، کتاب 78 ، باب 39 ) ، یعنی تم میں وہی بہتر ہے جس کا اخلاق دوسروں سے اچھا ہو ۔ ایک بار آپؐ نے فرمایا کہ ’’ اچھے اخلاق والے کو اچھے اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور قائم اللیل کا درجہ مل جاتا ہے (ابو داؤد : السنن ، 141:5 ، حدیث 4798 ) آپؐ کے نزدیک حسن خلق سے مراد چہرے کی بشاشت ، بھلائی کا پھیلانا اور لوگوں سے تکلیف دہ امور کا دور کرنا ہے (الترمذی ، 363:4 ، حدیث 20005 ) ۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپؐ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرے میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے بھی وہی پسند نہ کرنے لگو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو ‘‘ (مسلم ، 67:1 ، حدیث 45 ، احمد بن حنبل : مسند ، 272:3 ) ۔ ایک موقع پر فرمایا : ایک دوسرے سے نہ تو رو گردانی اختیار کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ لگاؤ اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ ‘‘ (مسلم 1985:4 ، حدیث 2563 ، البخاری 128:4 ، کتاب الادب) ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آپؐ کے درِ دولت سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے۔