شرپسند طاقتوں کا خاتمہ ضروری

لب نہیں کھلتے یہ کہنے کے لئے
کیا ہمیں ہیں ظلم سہنے کے لئے
شرپسند طاقتوں کا خاتمہ ضروری
صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے ایک ماہ میں دوسری مرتبہ ملک کے اندر رواداری کے بگڑتے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی اور سماج سے سوال کیا کہ آیا ملک سے رواداری معدوم ہوگئی ہے۔ دہلی میں کشمیر کے رکن اسمبلی شیخ عبدالرشید المعروف انجینئر رشید کے چہرے پر سیاہی پوت دینے کا واقعہ اس گوشت کھانے والوں کے خلاف مہم کا تسلسل ہے۔ سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں نے ملک میں اپنی مرضی کی سیاست اور ہٹ دھرمی کا دھرم اختیار کرتے ہوئے عدم رواداری کا اندھادھند مظاہرہ شروع کیا ہے۔ صدرجمہوریہ نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہیکہ اگر ملک میں رواداری اور اختلاف رائے کو قبول کرنے کی روایت معدوم ہوجائے تو حالات ابتر ہوسکتے ہیں۔ معاشرہ میں ہر وقت بدی یا باطل طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کے مہذب انسانوں کو بھی اس بدی کا خاتمہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی تہذیب و رواداری کی وجہ سے ہی گذشتہ 5000 سال سے زندہ جاوید ہندوستانی تمدن نے باطل اور بدی کی طاقتوں کو پسپا کرتا رہا ہے۔ بلاشبہ ہندوستان ایک کثیرالوجود والا ملک ہے یہاں 1600 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ صدرجمہوریہ نے ہندوستان کی اس قیمتی تاریخ کے حوالہ سے شہریوں پر زور دیا ہیکہ وہ اپنے اندر رواداری کے جذبہ کو فروغ دیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بقائے باہم کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ ہندوستانی تہذیب خود ایک ایسا مضبوط دستور ہے جس میں تمام اختلافات اور رائے کو قبول کیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ دسہرہ کے موقع پر بدی کا خاتمہ کرنے اور بالکل برحق کی فتح کو ہی اپنا ہدف مقرر کرلینے کا شہریوں کو مشورہ دیتے ہوئے صدرجمہوریہ نے ملک کے اندر حالیہ رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں پھوٹ ڈالنے اولی تنظیموں نے عدم رواداری اور تنگ نظری کی ایسے اندھادھند حرکتیں کی ہیں کہ اس سے آج ہندوستانی مہذب معاشرہ کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہندو سماج کے ارکان کی مہذب تاریخ رہی ہے۔ ان کے اندر رواداری ہمیشہ مضبوط چٹان کی طرح قائم رہی ہے لیکن آج کی اکثریتی آبادی میں بعض عناصر ایسے بھی ابھرے ہیں جو ہندو سماج کو بدنام کرنے اور تاریخ ہند کی قدیم روایات کو پامال کرنے کے درپے ہیں۔ رواداری ہی اجتماعی صبروتحمل، حقیقت پسندی اور طاقت کا آئینہ ہوتی ہے۔ ہندو سماج نے دیگر مذاہب کا ہمیشہ احترام کیا ہے۔ اختلاف رائے کو قبول کرتے ہوئے ہر مذہب کے ماننے والوں کو تسلیم کیا ہے مگر یہ کوئی طاقتیں ہیں جو ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ کو متاثر کر رہی ہیں۔ اسی ملک کو ایک کٹرپسند اور غیرمہذب معاشرہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں کیا ہندوستانی معاشرہ کے مہذب شہریوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ چند مٹھی بھر فرقہ پرست ٹولے کو سبق سکھا سکیں۔ ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے اور ان کے خفیہ اداروں کو آشکار کرکے ہندوستانی سماج کو مستحکم اور مضبوط بنایا جاسکے۔ ہمارے درمیان ہندو سماج کے کئی ایسی شخصیتیں ہیں جنہوںنے ہندوستانی بھائی چارہ سیکولرازم کو فروغ دیا ہے۔ ایسے معزز شہری ہیں جو باطل طاقتوں کی پہچان رکھتے ہیں۔ ان شخصیتوں کو اجتماعی طور پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جدوجہد آزادی میں جن طاقتوں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا تھا آج یہی طاقتیں سماج کو کمزور کرنے کیلئے اپنے سیاسی اختیارات اور اقتدار کا استعمال کرنے لگی ہیں تو ایسی طاقتوں کی سرکوبی کیلئے ہندوستانی عوام کو تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ ان کے سر پر مسلط ہونے والی سیاسی قوتوں نے زعفرانی ٹولے کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ نتیجہ میں آج ہندوستان میں ترقی اور اچھے دن آنے کے نعرے کے ذریعہ اقتدار کی راہ داریوں میں داخل ہونے والے مذہبی منافرت کے ساتھ ہندوستان کی روادارانہ تہذیب کو اپنے پیروں تلے کچلتے جارہے ہیں۔ برطانوی یا سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بن کر یہ لوگ برسوں ہندوستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے رہے ہیں۔ اب انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی کیلئے سامنے سے وار کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے یہ طاقتیں برسرعام کھلم کھلا ہندوستانی رواداری کو تباہ کرتے جارہے ہیں۔ شرپسند طاقتوں کا مکمل خاتمہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے ہندوستانی عوام کو رواداری کو مضبوط بنانے کیلئے اجتماعی کوشش کا درس دیا ہے اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرتے ہوئے سماج کے تمام مہذب شہریوں کو ہندوستانی معاشرہ میں بدی کی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔