شرعی قوانین میں مداخلت کا کسی کو اختیار نہیں ہے

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی

قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا۔ الخ‘‘۔(سورۂ مائدہ آیت نمبر ۳)
اس دین کو، دین اسلام کہا جاتا ہے، جس میں شرعی تما م مسائل بیان کئے جاچکے ہیں۔ اور مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بات اظہرمن الشمس واضح ہے کہ دین اسلام میں تاقیامِ قیامت کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
اِس وقت ’’طلاق ثلاثہ‘‘  کے متعلق جو کوشش کی جارہی ہے، یقینا وہ کسی بھی مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اور اس ترمیم کو کوئی مسلمان برداشت بھی نہیں کریگا۔ آ ج کے اس پُرفتن دور میں ہر مسلمان (خاص طور پر نوجوان نسل، خواہ وہ لڑکا ہو کہ لڑکی) کی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ شرعی مسائل سے واقفیت حاصل کریں۔ اور مخالفین کی طرف سے مداخلت پر روک لگانے کی بھر پور کوشش کریں۔
اگر حکومت ِ ہند کی طرف سے شراب پر روک لگادی جائے تو زائداز پچاس فیصد طلاق ہی نہ ہوگی۔
واضح ہو کہ نکاح سے جو تعلق، زوجین کے درمیان پیدا ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کا پابند و مقید ہوجاتا ہے اس تعلق اور وجہ تعلق کی شریعت اسلامیہ نے جیسی قدر افزائی کی اور اس کو جیسا استحکام بخشا ہے اس کی شاید ہی نظیر مل سکے ۔
حضرت سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود عملی طور پر اس کو رائج کرنا اور نکاح کرنے کے فضائل بیان فرمانا ‘ نیز حسن معاشرت کی تاکید ‘ اس کی فضیلت بلاضرورت قطع نکاح یعنی طلاق دینے کی مذمت ‘ جو احادیث شریفہ میں وارد ہے ۔ ان تمام امور کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ اس تعلق کی کیسی قدر کرتی ہے۔ فی الواقع اگر یہ تعلق اس قدر مستحکم نہ کیاجاتا اور ایسی کامل توجہ اس کی طرف مبذول نہ ہوتی تو یقیناً جو جو فوائد و مصالح نکاح سے مقصود تھے وہ کبھی حاصل نہ ہوتے ۔
نکاح تدبیر منزل کا ایک جزو اعظم اور نظام عالم کا رکن رکین ہے ۔ اگر یہ ایسا مستحکم نہ ہو اور قطع نکاح یعنی طلاق کی رسم عام طور پرجاری ہوجائے اور بے باکی سے لوگ اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو علاوہ اس کے کہ نفس پرستی کی تائید ہو تدبیر منزل میں بہت بڑا خلل آجائے اور تمدنی معاشرت کا  شیرازہ بکھر جائے ۔
نکاح کے تعلق کو زوجین ایک دائمی تعلق سمجھ کر اس طرح معاشرت کرتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے کے نفع و ضرر کو اپنا نفع و ضرر سمجھتا ہے ۔ ہر وقت ایک دوسرے کی ضرورت میں شریک رہتا اور ہرایک دوسرے پر اعتماد و بھروسہ رکھتا ہے اور جب یہ تعلق عارضی و ناپائیدار سمجھا جائے تو نہ باہم ایسا انس پیدا ہوسکے گا نہ ایک دوسرے پر اعتماد کرسکے گا اور نہ ان کی ضرورتیں مشترک ہوسکیں گی ۔ ایسی حالت میں حقوق کی نگہداشت بھی مشکل ہوجائیگی ۔
ایک دوسری حدیث شریف میں حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہما سے روایت ہے ’’  أَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلیَ اللّٰہِ الطَّلَاقُ ‘‘ (ابوداؤد، ابن ماجہ، حاکم) (تمام حلال چیزوں میں جو چیز اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہے وہ طلاق ہے )‘ اسی طلاق کی رسم کو کم کرنے کیلئے حضرت سروردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :  اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَلَا الذَّوَّاقَاتِ ‘‘  (اخرجہ البزار) یعنی خدا تعالیٰ ان مردو ںکو پسند نہیں فرماتا ہے جو (عورتوں کی) چاشنی چکھتے پھریں اور ان عورتوں کو بھی پسند نہیں فرماتا ہے جو (مردوں کی ) چاشنی لیا کریں۔ یہ ظاہر ہے کہ جب ایسی کیفیت رہے گی تو لا محالہ طلاق کی بھی کثرت ہوجائیگی۔ اور اس سے ایک دوسرے پر بے اعتمادی اور نظام معاشرت میں ابتری پیدا ہوجائیگی۔
المختصر ‘ شریعت اسلامیہ کا مقصود اصلی یہ ہے کہ یہ تعلق جو نکاح کی بدولت زوجین میں پیدا ہوا ہے پائیدار رہے ۔
مگر بایں ہمہ شرع مقدس نے اس تعلق کو ایسا لازم نہیں قرار دیا کہ کسی طرح ٹوٹ ہی نہ سکے ۔ بلکہ جس طرح اس تعلق کا استحکام و انتظام فرمایا ہے اسی طرح ضرورت و اضطرار کے موقع پر اس کے قطع کا بھی انتظام فرمایا ہے ۔ یہی شریعت اسلامیہ کا کمال ہے کہ اس کے تمام احکام میں اعتدال کا درجہ ملحوظ ہے اور ہر حکم افراط و تفریط سے پاک ہے ۔
اگر نکاح ایک ایسا تعلق ہوتا جوکسی طرح ٹوٹ ہی نہ سکے تو بعض اوقات انسان کو سخت مصائب کا سامنا ہوتا اور جس طرح طلاق کی کثرت سے نکاح کے فوائد و مصالح مفقود ہوتے اسی طرح طلاق کے یک لخت موقوف ہوجانے سے وہ تمام فوائد و مصالح درہم برہم ہوجاتے اور زوجین ان سے متمتع نہ ہوسکتے ۔
بسا اوقات زوجین میں نا اتفاقی پیدا ہوجاتی ہے اور کسی طرح اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی‘ ایسی حالت میں طلاق کی اجازت نہ ہوتی تو یا تو دونوں علحدہ علحدہ رہتے اور ایک دوسرے کے حقوق کی بربادی میں کوشاں رہتے یا یکجا رہتے مگر ظالم و مظلوم بن کر رہتے اور اس طرح دونوں کی زندگی نہایت تلخی سے بسر ہوتی ۔ لہذا شرعی قوانین میں مداخلت کا نہ کسی کو اختیارہے اور  نہ ہی کوئی گنجائش ہے۔
zubairhashmi7@gmial.com