شب قدر یوم عرفہ اور قربانی کے دن کا تعین

سوال : مقامی روزنامہ میں شب قدر کے واقع ہونے سے متعلق ایک مضمون بعنوان ’’علمائے کرام سے شب قدر کی فریاد‘‘ تفصیلاً شائع ہوا۔ مضمون مذکورہ کے بین السطور میں ایک محترم نے لکھا ہے کہ شب قدر کی تاریخ صرف اور صرف ایک ہی ہوگی اور وہ بھی صرف اور صرف مکہ مکرمہ یا سعودی عرب ہی کی معتبر ہوگی۔ دوسرے ملکوں کی نہیں جبکہ دوسرے ملکوں کی قمری تاریخیں مکہ مکرمہ یا سعودی عرب کی تاریخوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے دوسرے ملکوں میں قمری تاریخیں جو بھی ہوں طاق ہوں یا جفت مکہ مکرمہ یا سعودی عرب کی تاریخ ہی کا اعتبار ہوگا اور وہی تاریخ شب قدر کے تعین کیلئے قابل تقلید بھی ہوگی۔
متذکرہ مضمون کے آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ چوں کہ نزول قرآن کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور جبرئیل بھی سب سے پہلے مکہ مکرمہ ہی میں نزول فرماتے ہیں، اسی لئے مکہ مکرمہ کی تار یخیں ہی قابل اعتبار ہوں گی اور جب مکہ مکرمہ میں طاق راتیں تھیں تو ہمیں شب قدر حاصل ہوئی نہ ہی طاق راتوں کا اہتمام کرنے سے چاہے ستائیسویں شب ہو یا طاق راتیں ہوں اگر مکہ مکرمہ کی تاریخوں ہی کو ملحوظ رکھا جائے تو شب قدر کا پانا یقینی ہوسکتا ہے ورنہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔
مضمون ہذا کے پڑھنے کے بعد بیشمار مسلمان شب قدر کے واقع ہونے کے سلسلہ میں پریشان و متفکر ہوگئے، اس تعلق سے سارے مسلمانان ہند اس وقت بے چین و بے قرار ہیں۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ سارے مسلمانان ہند اور سارے عالم کے مسلمانوں کیلئے مقامی و متعلقہ رویت ہلال معتبر و قابل ہوگی یا مکہ مکرمہ کی کیونکہ ہر سال سعودی عرب میں عام طور پر ملک ہند سے ایک دن پہلے ماہِ رمصان المبارک شروع ہوجاتا ہے ۔ شب قدر کا تعین بھی مقامی رویت ہلال سے ہوگا یا مکہ مکرمہ کی رویت سے اگر ہم ہندوستانی مسلمان مکہ مکرمہ اور سعودی عرب کی رویت ہلال کو مان کر اور تسلیم کر کے شب قدر کا اہتمام کریں۔ (جیسا کہ فاضل مضمون نگار نے کہا) تو پھر کیا ہم ہندوستانی مسلمان عیدالفطر و عیدالاضحی بھی (بشمول یوم عرفہ و یوم قربانی) سعودی عرب کی رویت ہلال کے مطابق منائیں یا پھر مقامی و متعلقہ رویت ہلال کے مطابق ازروئے شریعت و قوانین رویت ہلال کے متعلق تفصیلی اور اطمینان بخش جواب دیں تو باعث سکون و تشکر و اجر ہوگا۔
نام…
جواب : شب قدر سال میں ایک ہی رات ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے عشر اواخر کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم فرمایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی رویت کو سارے جہاں والوں کیلئے کافی قرار نہیں دیا اور نہ ہی مدینہ منورہ کی رویت کو ساری دنیا کیلئے کافی قرار دیا اور نہ ہی خلفاء راشدین نے ساری اسلامی سلطنت میں ایک ہی دن عید اور ایک دن رمضان کے آغاز کا حکم فرمایا بلکہ حدیث شریف صوموا لرویتہ و افطر و الرویتہ ۔ (الحدیث) تم چاند دیکھ کر روزہ رہو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑدو کے مطابق۔ مسلمان مقامی رویت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کی ایجاد و وسعت کی بناء سعودی عرب کی رویت کی اطلاع ہورہی ہے ، ورنہ زمانہ قدیم میں جب تک قافلے واپس نہ ہوں رویت کی اطلاع ممکن نہ تھی۔ کیا اسلام کے احکام زمانہ کے بدلنے اور ٹکنالوجی کی ایجاد کی بناء بدلتے رہیں گے یا وہ فطری و ابدی قانون ہے جو ہر ملک و قوم کیلئے ہر زمان و مکان میں قابل عمل و قابل نفاذ ہیں؟
اگرچہ اختلاف مطالع کے اعتبار و عدم اعتبار سے متعلق ائمہ و فقھاء حتی کہ ائمہ احناف کے درمیان اختلاف ہے لیکن متفقہ بات یہ ہے کہ رویت ہلال کے اعلان کا حق حاکم یا نائب حاکم کو ہے ۔ ہندوستان میں جو رویت ہلال کمیٹیاں قائم ہیں وہ ا پنے اپنے علاقہ کیلئے نائب سلطان ، و نائب حاکم کا درجہ رکھتی ہیں، ان کا فیصلہ حتمی و قطعی ہوگا ۔ وہ اگر مطلع کا اعتبار کرتے ہوئے مقامی رویت کو ترجیح دیں اور رویت کا اعلان کریں تو تاریخ کا تعین اس کے مطابق ہوگا ۔ سارے مسلمان اس کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام الصوم یوم تصومون والاضحیٰ یوم تضحون ۔ (ترمذی شریف)
پس شب قدر ایک ہی رات ہے، ہند و پاک کی مقامی رویت ہلال کمیٹیاں زمانہ قدیم سے مقامی رویت پر عمل پیرا ہیں، اس کے مطابق اہل ہند و پاک طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کریں گے اور اگر سعودی عرب کے مطابق بھی شب قدر کا اہتمام کرنا چاہیں تو یہ ان کا و اختیاری عمل ہے ۔ بہر کیف مسلمانوں کی مرکزیت و اجتماعیت جس پر متفق ہو اس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے ۔ یہی حکم یوم عرفہ اور قربانی کا ہوگا۔ جس کا اعتبار مقامی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کے تابع ہوگا اور مقامی رویت ہلال کمیٹی حسب احکام شرع مقامی رویت کو ترجیح دیتی ہے اس لئے اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔مکہ مکرمہ کی رویت کو ساری دنیا کی رویت یلئے کافی کہنا شریعت سے ثابت نہیں۔

ناکتخدا کا اعتکاف
سوال : اگر کوئی شادی شدہ عورت یا غیر شادی شدہ لڑکی مسجد میں اعتکاف کرے تو کیا وہ ثواب کی مستحق ہوگی یا نہیں ؟
مرزا قمر علی بیگ، نیو ملے پلی
جواب : اعتکاف مرد اور خواتین دونوں کے لئے مشروع ہے، مرد ایسی مسجد میں اعتکاف بیٹھیں گے جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو اور خواتین اپنے گھر کی مسجد میں یعنی جس مقام کو انہوں نے نماز کیلئے متعین کرلیا ہے اس مقام میں اعتکاف بیٹھیں گی اور اگر کوئی خاتون مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو جائز ضرور ہے تاہم کراہت سے خالی نہیں۔ عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف بیٹھنا افضل و اولی ہے۔ عورت کیلئے گھر کی مسجد ، جماعت والی مسجد کے حق میں ہے ۔ عالمگیری جلد اول الباب السابع فی الاعتکاف ص : 211 میں ہے : والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجدالجماعۃ فی حق الرجل لا تخرج منہ الا لحاجۃ الانسان کذا فی شرح المبسوط للامام السرخسی ولو اعتکفت فی مسجد الجماعۃ جاز و یکرہ ھکذا فی محیط السرخسی والاول افضل و مسجد حیھا افضل لھا من المسجد الاعظم۔

حضانت
سوال : تین سال قبل زید اور ہندہ کا نکاح ہوا، دونوں میں شروع ہی سے اختلافات رہے ، اسی اثناء میں ایک لڑکی تولد ہوگئی ۔ موافقت و یکسوئی کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بالآخر دونوں میں طلاق ہوگئی ، لڑکی دو سال کی ہے اور وہ والد ہی کے پاس ہے ۔ عدت طلاق ختم ہوتے ہی ہندہ نے دوسری شادی کرلی ۔ اتفاق کی بات ہے کہ دوسرے شوہر سے بھی ہندہ کا نباہ نہ ہو ۔اور دو ماہ ہی میں دونوں میں خلع ہوگیا اور عدت ختم ہوگئی ، اب ہندہ اپنی لڑکی کی پرورش کے حق کا مطالبہ کر رہی ہے اور زید کا دعویٰ ہے کہ ہندہ کو لڑکی کی پرورش کا حق نہیں کیونکہ وہ شادی کرچکی تھی ۔ شرعا کیا حکم ہے ؟ واضح رہے کہ لڑکی کی نانی بھی صحتمند ہیں اور پرورش کرنے کی خواہشمند ہیں۔
محمد خان صاحب، تگل کنٹہ
جواب : شرعاً لڑکی بلوغ تک ماں کی پرورش میں رہے گی ، ماں اگر دوسری شادی کرلے تو اس کا حق حضانت ختم ہوکر نانی کو حاصل ہوجائے گا اور اگر ماں کا رشتہ زوجیت منقطع ہوجائے تو اس کا حق حضانت عود کرجاتا ہے ، اس کو اپنی لڑ کی کی پرورش کا حق رہتا ہے ۔ عالمگیری جلد اول باب الحضانۃ ص : 542 میں ہے : والام والجدۃ احق بالجاریۃ حتی تحیض ۔ اور ص : 541 میں ہے : و انما یبطل حق الحضانۃ لھولاء النسوۃ بالتزوج اذا تزوجن با جنبی … و من سقط حقھا بالتزوج یعود اذا ارتفعت الزوجیۃ کذا فی الھدایۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں ماں نے بعد ختم عدت شادی کرلی تھی تو لڑکی کی پرورش کا حق اس کی نانی کو حاصل ہوا اور اگر ماں کا رشتہ نکاح منقطع ہوگیا ، دوسرے شوہر سے طلاق کی بناء تفریق ہوگئی تو اس کی لڑکی کا حق حضانت اس کی ماں کو حاصل ہوگیا ۔ باپ کو منع کرنے کا حق نہیں۔

ماں باپ کا نفقہ
سوال : ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب ضعیف ہیں، ان کو دو لڑکے ہیں۔ دونوں بھی کمائی پوت ہیں، ایک کی آمدنی زیادہ ہے اور ایک کی کم ہے ۔ کم کا مطلب یہ نہیں کہ وہ والد کے نفقہ کا متحمل نہیں، وہ تنہا والد کا نفقہ و ضروری اخراجات کی تکمیل کرسکتا ہے ۔ اب دونوں بھائیوں میں اختلاف ہورہا ہے ۔ ایک کہتا ہے کہ جس کی آمدنی زیادہ ہے وہ اضافہ خرچ کرے اور جس کی آمدنی کم ہے وہ کم خرچہ کرلے گا۔ شرعاً کیا حکم ہے؟
نام…
جواب : تنگدست باپ کا نفقہ اولاد پر لازم ہے اور تمام اولاد ادائیگی نفقہ میں برابر ہے۔ یعنی ہر ایک پر برابر برابر نفقہ لازم ہوگا۔ عالمگیری جلد اول ص : 564 میں ہے: قال و یجبرالولد الموسر علی نفقۃ الابوین ا لمعسرین … واذا اختلطت الذکور والاناث فنفقۃ الا بوین علیھما علی السویۃ فی ظاھر الروایۃ
پس دونوں لڑکے ادائیگی نفقہ کے متحمل ہیں تو دونوں پر مساوی مساوی نفقہ کی ادائیگی کا وجوب ہوگا ۔ ایک کی آمدنی زائد ہو تو اس کو زائد ادا کرنے کا شرعاً لزوم نہیں۔ تاہم جو خرچ کرے گا وہ اجر و ثواب کا مستحق قرار پائے گا۔

قضاء نمازیں بیٹھ کر ادا کرنا
سوال : میری عمر ستر سال ہے اور مجھ پر کئی نمازیں قضاء ہیں اور اب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں، فرض نماز بیٹھ کر ادا کر رہا ہوں۔ ایسی صورت میں صحت و تندرستی کی حالت میں جو نمازیں قضاء ہوئیں ہیں اس کو میں بیٹھ کر ادا کرسکتا ہوں یا پھر کھڑے ہوکر ہی ادا کرنا ہوگا ؟
محمد عبدالجبار سہروردی، عیدی بازار
جواب : کوئی شخص حالت مرض و بیماری میں صحت و تندرستی کی حالت میں فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا چاہتا ہے تو اس کو حسب قدرت بیٹھ کر یا اشارہ سے قضاء کرنے کی اجازت ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 138 میں ہے : و ان قضی فی المرض فوائت الصحۃ قضا ھا کما قدر قاعدا او مومئا کذا فی ا لسراحبیۃ۔
پس آپ حسب سہولت و قدرت صحت کے زمانہ کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء بیٹھ کر ادا کرسکتے ہیں۔

سجدۂ تلاوت کے دوران قھقھہ
سوال : میں گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا، آیت سجدہ پر پہنچا اور بعد تلاوت، سجدۂ تلاوت کیا ، میں سجدہ میں ہی تھا ۔ میرے اطراف بیٹھے میرے چھوٹے لڑکے نے ایک بات ایسی کہدی کہ بے اختیار مجھے سجدہ میں ہنسی آگئی اور بڑی آواز سے میں نے ہنس دیا۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ سجدۂ تلاوت کیا ۔ میں نے ایک صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ دوبارہ وضو کر کے سجدہ تلاوت کرنا چاہئے کیونکہ دوران نماز قھقھہ لگانے سے نہ صرف نماز فاسد ہوتی ہے بلکہ وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس بارے میں شرعی احکام سے اگاہ فرمائیں تو مہربانی۔
محمد عثمان ، آصف نگر
جواب : نماز میں قھقھہ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے کیونکہ مطلق نماز سے متعلق نص وارد ہوئی ہے ۔ سجدۂ تلاوت صرف ایک سجدہ ہے کامل نماز نہیں ہے اس لئے سجدۂ تلاوت میں قھقھہ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بدائع الصنائع جلد 2 ص : 58 میں ہے : لانا عرفنا القھقھۃ حدثا بالنص الوارد فی صلاۃ مطلقۃ فلا یجعل واردافی غیرھا۔