شام کا سورج

نسیمہ تراب الحسن
میں بڑے انہماک سے سورج سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیوں ہمیشہ سورج کے ساتھ آگ کا گولہ یا تپش کا ذکر کیا جاتا ہے ، ذرا اس وقت دیکھو سورج کتنا مطمئن لگ رہا ہے ، نہ گرمی کی شدت نہ اس کی شعاعوں میں حدت ، سرخ جوڑا پہنے ایک الہڑ دوشیزہ کی طرح درختوں کے پیچھے لہراتی چال چل رہا ہے ۔ اس کے اس روپ سے فضا پر شفق کی لالی چھاگئی ہے ۔ دور افق تک پھیلا گلنار رنگ ، گہرے سے ہلکا ہوتا ہوا اپنے اندر کتنا طلسماتی حسن پیدا کررہا ہے ۔ یہ تو دیکھنے والے کی نظر ہی اندازہ کرسکتی ہے ۔ اس کو الفاظ کا جامہ پہنانا غالباً ممکن نہیں اور پھر اس میں وہ تاثیر کہاں جو نگاہیں دل و دماغ کو سمجھادیتی ہیں ۔ اس کی دھیمی رفتار سے بکھرتا لال رنگ جب سفید بادلوں سے ٹکرا جاتا ہے تو ایک اچھوتی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ہری گھاس کے درمیان کسی گڑھے میں بھرے پانی میں اس کا عکس کچھ اور دلفریبی پیدا کردیتا ہے ۔ درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے بیچ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک نئی نویلی دلہن شرماتی لجاتی دھیرے دھیرے قدم بڑھارہی ہو اور جب کھلے نیلگوں آسمان پر پہنچ جاتا ہے تو ایسی شان بے نیازی سے چمکنے لگتا ہے جیسے دن بھر اپنے کام انجام دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کے پرسکون احساس سے مالا مال ہو ۔ یہ لیجئے میں نے جو اس کی طرف ٹکٹکی باندھی وہ نیچے کہیں چھپ گیا ، شاید اسے یہ اچھا نہیں لگا کہ اس کی شخصیت کے اس حسن کو طشت از بام کیا جائے ۔

یوں تو پو پھٹنے سے لے کر غروب آفتاب تک دنیا والے اسی کا تذکرہ کرتے ہیں جیسے ’’سورج چڑھا بام فلک پر‘‘ ایسی دھوپ ہے کہ چیل انڈہ چھوڑدے ، اتنی تیز دھوپ ہے کہ الامان ، الحفیظ ، دھوپ کی شدت مت پوچھو زمین پر چنا گرے تو بھن جائے ۔ دھوپ میں پھرنے سے سرچکراگیا ، دھوپ میں جلتے جلتے رنگ کالا ہوگیا وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی سورج کی موجودگی دھوپ اور دھوپ کے اثرات ہر ایک کی زبان پر سنائی دیتے ہیں ، مگر سورج ہے اور دھوپ نہیں ، ہر طرف دلکشی کا منظر صرف مصور کی نگاہوں میں اس کے برش سے پھیلے رنگوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں اور ہمیں وہ تصویریں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ تو آرٹسٹ کی مبالغہ آرائی ہے لیکن آپ کے پاس وقت ہے ، دل میں خواہش ہے تو شام ڈھلے ایسی جگہ جایئے ،جہاں سے سورج کی مستانہ چال کے نظارے دیکھ سکیں تو اس بات کا اندازہ کرسکیں گے کہ وہ اپنے سے وابستہ دلکشی کس کس طرح کائنات کی دوسری مخلوق کو بانٹتا جاتا ہے ۔ اسی کے ساتھ دن بھر کی مشقت ختم ہونے کی خبر کا اعلان ہونے لگتا ہے ۔ کام سے تھکے ہارے جسم و ذہن گھر میں سکون پانے کے متمنی چرند ،پرند ، انسان سبھی کے قدم شوق سے اپنے ٹھکانے کی طرف الٹنے لگتے ہیں ۔ چاہے مکان عالیشان ہو یا چھوٹا سا جھونپڑا ۔ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی خواہش دل کو راحت دیتی ہے ۔ آپس میں دن بھر کی باتیں کرنے سے طبیعت ہلکی ہونے کا احساس تمام تھکاوٹ دور کردیتا ہے پھر رات بھر کا آرام ، کسی کی نگاہوں میں باپ کی منتظر صورت ، ماں کا شفقت بھرا برتاؤپھرنے لگتا ہے ، کسی کے کانوں میں بیوی کی چوڑیوں کی کھنک سنائی دیتی ہے اور کوئی اولاد کو گلے کا ہار بنتا محسوس کرتا ہے ، کسی کا ارادہ دوست سے ملنے کا اور کوئی چاہنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھنے کے منصوبہ بناتا ہے ،بہرحال نہ کام کی فکر نہ کسی طرح کی بھاگ دوڑ کا چکر ، شام سے صبح تک کا وقت اپنی مرضی اپنی خوشی سے گذار سکتے ہیں اور یہ سب سورج کی اس سبک رفتاری سے وابستہ ہے ۔ سورج کی اس ٹھنڈک کے ساتھ کتنی خوشگوار باتیں اجاگر ہوجاتی ہیں  ۔

عموماً غروب آفتاب کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں تنزل کا خیال آتا ہے جس کی وجہ سے دل و دماغ پر پژمردگی چھاجاتی ہے ، چنانچہ شام کو روشن دن ختم ہونے اور رات کی تاریکیوں کا پیش خیمہ تصور کرنے لگتے ہیں ۔ شفق کی لالی میں بھی اداسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ دراصل یہ ہمارے سوچنے سے تعلق رکھتا ہے ، ورنہ سورج کا طلوع ہونا ، آسمان کی بلندیوں پر پہنچنا، اپنی گردش مکمل کرتے رہنا  ،ہر دم ایک الگ پیغام دیتے ہیں ۔ ہر گھڑی اس کی جداگانہ کیفیت سے ہم کو جینے کا سلیقہ آنا چاہئے ۔ اس کے ہر رنگ سے ہزاروں رنگ بنتے ہیں ۔ لاکھوں مطلب نکلتے ہیں ۔ وقت کا پیمانہ بنتا ہے ، موسم کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ سولار سسٹم چلتا ہے ، دانشوروں کی عقل کا امتحان رہتا ہے ۔ سائنٹسٹ سورج کی شعاعوں سے نہ جانے کیا کیا حاصل کرتے جارہے ہیں ۔ ادیبوں کے قلم علمی باتیں قلمبند کرتے رہتے ہیں ۔ شاعروں کے تخیل کی پرواز اڑان بھرتی ہے ، مصور کا برش رنگ بکھیرتا ہے ، کہیں برف پگھل کر ندیاں بہنے لگتی ہیں، کہیں لاوا ابل کر آتش فشاں بن جاتا ہے ۔ کہیں پانی سوکھ کر قحط کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ، کہیں بھاپ بن کر بادل کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور پھر رحمت کا دھارا برسنے لگتا ہے ، ہر طرف سرسبز درخت اور خوشنما پھول ، باغوں میں پھل ، کھیتوں میں اناج پیدا کرنے کا ضامن بن جاتا ہے  ۔کہیں پانی میں آگ کا سماں پیدگا کرتا ہے تو کہیں پگھلا سیماب اور کبھی ریت پر سراب دہر کی صورت دکھائی دیتا ہے ۔ الغرض سورج اپنی کرنوں سے بے شمار کام انجام دیتا ہے جو ہم کو پروردگار عالم کی صناعی ، اس کی مرضی اور اس کی قدرت سے روشناس کراتی ہے ۔ بات شروع ہوتی ہے سورج کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی  ۔ایک کہتا ہے ’’سورج نکلا تارے بھاگے‘‘ دوسرا کہتا ہے ’’عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا‘‘ اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ شام کے پھیلتے اندھیرے کے تاثرات کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ ’’تاریکی میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘‘ ۔ یہ سب زندگی میں رونما ہونے والی سچائیاں ہیں، جن کی مثال سورج کی گردش سے دی جاتی ہے لیکن اس کی اجلی چادر میں پڑی سلوٹوں میں پوشیدہ اچھائیوں کا تجزیہ نیک نیتی سے کریں تو ہمیں سکون ملے گا ۔صبح عالم بیداری ، دوپہر کا جاہ و جلال عروج ، سہ پہر اطمینان اور مغرب سے فجر تک آرام ، سب کچھ تو موجود ہے اسی ایک سورج کی گردش میں ، اس کی کرنوں سے نکلے سات رنگ کتنی خوبصورت قوس و قزح بناتے ہیں پھر ان رنگوں سے نہ جانے کتنے رنگ بن جاتے ہیں ، جن کے اندر مختلف معانی پنہاں ہوتے ہیں ۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو الگ حسن الگ شان سے اور شام کے سورج کی دلفریبی جدا رہتی ہے ۔ ضرورت ہے تو چشم بینا کی ۔ ایسے ہی نظر والوں نے صبح بنارس اورشام اودھ کی تفصیل میں قصیدے لکھ دیئے ۔ صبح کی تازگی کا بیان تو ہر ایک کی زبان پر ملتا ہے مگر شام کو اداسی سے منسلک کرنے کی میں قائل نہیں ۔ اسی لئے سورج کی شام کے وقت کی دلکشی کا ذکر لے بیٹھی ۔ مجھے اپنی کم مائیگی پر افسوس ہے کہ ان مناظر پر ایسا نہ لکھ سکی کہ دل کی گہرائی تک اس کی نرم روشنی پہنچ سکتی ۔ ہماری زندگی ایک دم متضاد عناصر کے خمیر سے بنی ہے ، بہت پیاری ، بڑی بانکی ، بڑی مہربان اور بہت سخت جس میں سورج ہی کو جاہ و جلال بھی حاصل ہے اور شام تک بڑا نرم و دلکش بھی ۔