شام میں مزید تباہی کے آثار

فیض محمد اصغر
شام کے دوما میں بشار الاسد فورسس کی جانب سے کیمیائی حملہ اور اس میں درجنوں بچوں و خواتین کے جاں بحق ہونے کا ایسا لگتا ہے کہ بشار الاسد کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا کیونکہ بے قصور شہریوں کا قتل وہ بھی کیمیائی گیس کے استعمال کے ذریعہ معصوم زندگیوں کا اتلاف ایک سنگین جرم ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بشار الاسد اور ان کی فوج مسلسل سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتی آرہی ہے۔ اس کے باوجود ساری دنیا مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اسلامی ممالک سے لے کر مغربی ممالک اور اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی صرف بیان بازی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اگر عالمی برادری 2011 میں ہی عملی اقدامات کرتی تو شام میں 5 لاکھ سے زائد مردوں و خواتین اور بچے بچوں کی ہلاکتیں نہ ہوتی اس سے کہیں زیادہ تعداد میں شامی باشندے زخمی نہ ہوتے اور لاکھوں کی تعداد میں شامی باشندے بے گھر نہ ہوتے آج شامی باشندے پناہ گزینوں کی شکل میں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ دنیا میں پناہ گزینوں کا جو بحران پیدا ہوا ہے اس کی ایک وجہ شام میں جاری خانہ جنگی بھی ہے۔ روس بشار الاسد اور ان کی حکومت کی مکمل تائید و حمایت بلکہ دفاع کررہا ہے اور امریکہ کو صرف دھمکیاں دینے اور دھمکیوں پر مبنی بیان بازی سے فرصت نہیں۔ اس نے اپنے حلیفوں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ملک شامی لیبارٹیز اور اداروں پر حملہ کر کے یہ تصور کرلیا ہے کہ اس کی ذمہ داری ختم ہوگئی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکی اور اتحادی فورسس اس طرح بشارالاسد حکومت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دوسرے گروپوں کے خلاف کی گئی۔ عرب لیگ اور او آئی سی صرف حسب روایات و عادت مطالبات کرنے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ بشار الاسد پر کسی کی دھمکیوں اور مطالبات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس بھی میں دوما میں شہریوں کے خلاف کیمیائی اسلحہ کے استعمال پر امریکہ اور روس کے نمائندوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ امریکہ اور روس کے درمیان لفظی جنگ سے اس بات کی امید پیدا ہوگئی کہ عالمی برادری بشار الاسد اور ان کی حکومت کے خلاف ٹھوس کارروائی ضرور کرے گی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دوسرے چھ ملکوں نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ نے اگرچہ شام کے دوما میں عام شہریوں پر کیمیائی حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کا موثر جواب دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کی کارروائی محدود رہی جس کے کوئی نتائج برآمدنہیں ہوئے،

اس کے باوجود موجودہ حالات سے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور روس کی تلخ کلامی و لفظی جنگ کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اور شامی بحران اپنے حتمی نتائج کو پہنچے گا اگر شام میں بشار الاسد حکومت بیدخل ہو جاتی ہے تو عالمی سطح پر افغانستان کے بعد شام میں روس کی یہ دوسری بڑی شکست ہوگی۔ واضح رہے کہ بچاؤ اور طبی ٹیموں کا کہنا ہے کہ کو دوما میں شامی فورسس نے زہریلی کلورین گیس کا حملہ کیا جس میں درجنوں جانیں گئیں۔ مہلوکین میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد شامل تھی۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے شامی حکومت پر دوما میں زہریلی گیس حملہ کا الزام عائد کیا ہے لیکن شامی حکومت اور اس کے کٹر حلیف روس نے ان الزامات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ ہندوستانی نژاد نکی ہیلی نے شام کے ساتھ روس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ نکی ہیلی کا کہنا تھا ’’ہم اس مرحلہ پر پہنچ گئے جہاں دنیا کو انصاف دکھانا ضروری ہے، نکی ہیلی نے واضح پر شام اور روس کو دو ماہ میں کیمیائی حملہ کا ذمہ دار قرار دیا۔ نکی ہیلی نے اقوام متحدہ سیکوریٹی کونسل کی خاموشی پر بھی بالراست تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ اس لمحہ کو ضرور ریکارڈ کرے گی کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل اپنے فرائض کی ادائیگی اور شامی باشندوں کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے کچھ بھی ہو امریکہ اس کیمیائی حملہ کا جواب دے گا۔ نکی ہیلی کے بیان پر بظاہر برہم دکھائی دے رہے روس کے مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے کیمیائی حملہ کے الزامات کو دروغ گوئی پر مبنی قرار دیا۔ ا

نہوں نے یہاں تک کہدیا کہ روس اسلحہ انسپکٹران کو دومالے جانے کے لئے تیار ہے تاکہ وہ خود وہاں کے حالات کا مشاہدہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آیا حقیقت میں وہاں کیمیائی حملہ کیا گیا ہے یا یہ سب الزامات بے بنیاد ہیںلیکن انسپکٹران جب شام پہنچے تو ان پر فائرنگ کی گئی۔ عالمی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا بیان جہاں بہت سخت رہا وہیں روسی سفیر وازیلی نینزیا کا بیان بھی سخت رہا۔ انہوںنے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے ڈالی جس سے سلامتی کونسل میں ارکان کی برائے منقسم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ امریکی سفیر نے توصاف کہہ دیا ہے کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل شامی حکومت کے خلاف کچھ کرے یا نہ کرے، لیکن امریکہ کیمیائی حملہ کا جواب ضرور دے گا۔ فضائی حملہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ دوسری طرف شام میں اقوام متحدہ کے سفیر اسٹافن مستورا نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اتحاد اور کارروائی پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ پر عالمی امن و سلامتی کی برقراری کے لئے زور دیتے ہیں اور خدا کے لئے عالمی قانون کی برقراری کی درخواست کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بہت جلد، کیمیائی حملہ کے جواب میں ایک بڑا فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن فضائی حملہ زیادہ موثر ثابت نہ ہوا۔