شاذ ، مجتبیٰ اور ایک مراٹھی ادیب

مدھوکر دھرماپوری کر
ترجمہ : ڈاکٹر ضیاء الحسن
(مدھوکر دھرماپوری کر مراٹھی کے جانے پہچانے ادیب ہیں ۔ ادب کی ہمہ وقتی خدمت کے لئے 2007ء میں انھوں نے سرکاری ملازمت سے رضاکارانہ طور پر سبکدوشی اختیار کرلی ۔ ادبی و نیم ادبی موضوعات پر موصوف کی تقریباً ایک درجن کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ ایک کہانی پر شارٹ فلم بھی بن چکی ہے ۔ دھرماپوری کر اپنی کہانیوں اور مضامین میں اردو اشعار کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے انھوں نے ’’اردو کرسپانڈنس کورس‘‘ بھی کیا ہے ۔ ان کے ایک مضمون کا ترجمہ نذر قارئین ہے جو کثیر الاشاعت مراٹھی ماہنامہ ’’للت‘‘ بمبئی کے دیوالی نمبر میں شائع ہوا تھا ۔ ض ح)

مشہور مراٹھی ادیبہ اوما کلکرنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی عام گفتگو میں بھی مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہوتا ہے ۔ اپنے تلخ تجربات کو وہ اتنے دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہیں کہ مزہ آجاتا ہے ۔ ایک بار انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے کہا تھا کہ ’’اپنی کتابیں  چھپ جانے کے بعد میں انھیں کھول کر بھی نہیں دیکھتی‘‘ ۔ میں ان کی بات سمجھ نہیں پایا تو انھوں نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ ’’کتاب کھولنے کے بعد میری ساری توجہ کتابت و طباعت کی غلطیوں کی طرف چلی جاتی ہے اور موڈ بگڑ جاتا ہے اس لئے کتاب چھپ کر آنے کے بعد میں اس کی طرف دیکھتی بھی نہیں‘‘ ۔ اس طرح کے ایک تجربے سے میں بھی گزر چکا ہوں ۔ اپنی لکھی ہوئی کتاب تو ہر ادیب کو عزیز ہوتی ہے ۔ لیکن اس میں غلطیاں رہ جائیں تو یہ بری طرح کھٹکنے لگتی ہیں ۔ اس طرح لکھنے لکھانے کی ساری خوشی ضائع ہوجاتی ہے ۔ کتاب کی طباعت کے بعد نہ تو ان غلطیوں کی اصلاح ممکن ہوتی ہے اور نہ اسے صرف نظر کیا جاسکتا ہے ۔ جب کبھی میرے ذہن میں نئے نئے مضامین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو میں بے انتہا خوش ہونے لگتا ہوں ۔ کچھ وقفے کے بعد یہی خیالات مجھے نہ جچیں تو میں اپنے آپ پر چڑنے لگتا ہوں ۔ یہ میری فطرت ہے ۔ اسے آپ ایک طرح کا سائڈ ایفکٹ کہہ سکتے ہیں ۔ اس طرح ادب پارے کی تخلیق کے دوران آشا اور نراشا کا کھیل جاری رہتا ہے ۔ کتاب کا انتساب لکھنا تو میرے لئے انتہائی جذباتی مرحلہ ہوتا ہے ۔ کئی اچھوتے خیالات ذہن میں آتے اور چلے جاتے ہیں ۔ پھر اس طوفان کے تھمنے کے بعد ایک سکوت طاری ہوجاتا ہے ۔

’’جناب منزل‘‘ کے لئے میں نے کئی عمدہ اشعار ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھا کئے تھے ۔ ان میں کچھ شعر ایسے بھی تھے جو پتہ نہیں کن شاعروں کے ہیں ۔ میں نے سوچا  کیوں نہ اپنی کتاب کو انہی شاعروں کے نام معنون کروں ۔ چنانچہ میں نے ’جانب منزل‘ کو اس شعر کے ساتھ گمنام شاعروں کے نام معنون کردیا ۔ گزشتہ ایک سال سے کتاب چھپنے کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔ آخرکار  فائنل کاپی کی پی ڈی ایف فائل مجھے ای میل کے ذریعے وصول ہوئی ۔ میں نے پرنٹ آوٹ کی ایک نفیس بک لٹ تیار کروائی ۔ اپنے اس کارنامے پر میں بہت خوش تھا ۔ دوستوں نے بھی میری کوششوں کو سراہا تھا ۔ میرے ایک دوست جو اردو کے ادیب بھی ہیں ایک دن میرے گھر آئے ۔ ہم لوگ کتاب کے بارے میں گفتگو کررہے تھے ۔ بک لیٹ ان کے ہاتھ میں تھی ۔ اچانک ان کی نظر شعر کے نیچے لکھے ہوئے شاعر کے چھوٹے سے نام پر پڑی ۔ وہ بولے ’’ارے بھائی! شاعر کا تخلص شاذ ہے نہ کہ شاد‘‘ یہ سنتے ہی میں چکراگیا ۔ غور سے دیکھا تو وہاں مراٹھی رسم الخط میں ’’شاد‘‘ لکھا تھا ۔ افوہ ! کتنی بڑی غلطی کربیٹھا تھا میں ۔ جس شعر کو انتساب میں شامل کیا اس شاعر کا نام غلط لکھ ڈالا ۔ ؎ ہائے کیا نام تھا اس شخص کا… وہ تو میرے نصیب اچھے تھے کہ غلطی کی نشاندہی بروقت ہوئی ورنہ اگر میں اپنی فطری عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسوری پبلشر کو بھیج دیتا اور کتاب چھپ کر آجاتی تو اوما کلکرنی کی طرح میرا دل بھی کتاب کھول کر دیکھنے کو نہیں چاہتا ۔ کتاب کے ٹائپ شدہ مسودے کو پروفیشنل پروف ریڈر نے پوری توجہ سے دیکھا تھا ۔ دراصل غلطی مجھ سے ہوئی تھی ، بے چارے پروف ریڈر کا کیا قصور ۔ میں نے فون پر شاذ کو شاد سنا اور وہی لکھ ڈالا ۔ میں نے دوست سے درخواست کی کہ براہ کرم مجھے دو کتاب لادیجئے جس میں یہ شعر چھپا ہے ۔ دوسرے ہی دن انہوں نے مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا مجموعہ ’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ مجھے لاکر دیا ۔ دوست نے مجھے بتایا کہ مجتبیٰ حسین اردو کے بہت بڑے ادیب اور طنز و مزاح نگار ہیں ۔ حیدرآبادی شاعر شاذ تمکنت ان کے قریبی دوست تھے ۔ مجھے تاکید کی گئی کہ میں اس کتاب میں شامل شاذ تمکنت پر لکھا ہوا خاکہ ضرور پڑھوں ۔ میں نے اردو سیکھی ضرور ہے لیکن مشق نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے کی رفتار بہت دھیمی ہے ۔ لیکن کتاب کے موٹے موٹے حروف دیکھ کر ہمت بندھی ۔ خاص کر مجتبیٰ حسین کے اسلوب مزاح نگاری جس کا ذکر دوست نے کیا تھا اور خصوصاً اس ’’انتسابی حادثہ‘‘ نے مجھے کتاب پڑھنے کی طرف مائل کیا ۔ اردو پڑھنا میرے لئے ایسا ہی ہے جیسے پتھریلی سڑک پر اسکوٹر چلانا ۔ چنانچہ شاذ تمکنت والے مضمون کی پہلی قرأت جیسے پہلے گیئر میں ہوئی ۔ دوسری اور پھر تیسری قرأت میں پڑھنے کاصحیح لطف آیا ۔ کئی ایسی باتیں معلوم ہوئیں جن سے میں ناواقف تھا ۔ مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے مزاج میں شروع سے ہی شوخی اور چلبلاپن ہے جب کہ شاذ تمکنت انتہائی متین اور سنجیدہ قسم کے انسان تھے ۔ ایک بار مجتبیٰ حسین اور شاذ تمکنت اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ رات کا کھانا کھانے دہلی کی جامع مسجد کے علاقے سے گزر رہے تھے ۔ آگے آگے کچھ مزدور اپنے سروں پر پٹرومیکس اٹھائے کسی تقریب سے لوٹ رہے تھے ۔ انھیں  دیکھ کر مجتبیٰ حسین کی رگ ظرافت پھڑکی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے ایک مزدور کے قریب گئے اور شاذ تمکنت  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا کہ ’’وہ صاحب تمہارا نام جاننا چاہتے ہیں‘‘ ۔ مزدور بے چارہ اپنے سر پر پٹرومیکس اٹھائے وہیں کھڑا رہ گیا ۔ جب شاذ اس کے قریب آئے تو اس نے کہا ’’باؤجی ! میرا نام عبدالرحمن ہے‘‘ ۔ شاذ بولے ’’اچھا تمہارا نام عبدالرحمن ہے ، بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر ، اچھا بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ۔ اس پر مزدور نے مجتبیٰ حسین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  ’’ان باؤجی نے کہا تھا کہ آپ میرا نام جاننا چاہتے ہیں‘‘ ۔ مجتبیٰ فوراً بولے ’’یار شاذ ! میں تو تمہاری مشکل آسان کررہا ہوں ۔ پوچھ لو ان کا نام ورنہ بعد میں نہایت کرب کے ساتھ کہوگے    ؎
آگے آگے کوئی مشعل سی لئے چلتا تھا
ہائے کیا نام تھا اس شخص کا پوچھا بھی نہیں
اس پر شاذ اتنا ہنسے کے آنکھیں بھیگ گئیں ۔ بہرحال مجتبیٰ حسین کے چلبلے مزاج اور ان کے انداز تحریر سے نامور مراٹھی ادیب جیونت دلوی کی یاد تازہ ہوگئی ۔

مجتبیٰ حسین کی بذلہ سنجی سے شاذ ایک مرتبہ ناراض بھی ہوئے تھے ۔ دونوں فنکاروں کی نوجوانی کا زمانہ تھا ۔ کشمیر کے کسی مشاعرے کے منتظمین نے مشاعرے میں شرکت کے لئے شاذ تمکنت  کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھجوایا تھا جس کی اطلاع مجتبیٰ حسین کو پہلے ہی مل چکی تھی ۔ چنانچہ انھوں نے دوستوں کو سمجھادیا تھا کہ شاذ ہوٹل میں آئیں تو کوئی بھی دوست ان سے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے بارے میں بات نہ کرے ۔ تھوڑی دیر بعد شاذ تمکنت ہوائی جہاز کا ٹکٹ تھامے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔ ٹکٹ ٹیبل کے بیچوں بیچ رکھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ۔ مگر دوستوں میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں پوچھا ۔ ہوٹل کے بیرے نے پہلے پانی کا گلاس اور پھر چائے لاکر رکھی تو شاذ نے اسے دو مرتبہ ٹوکا کہ ’’میاں ذرا احتیاط سے ، یہاں پلین کا ٹکٹ رکھا ہے‘‘ ۔ دوست خاموش رہے ۔ تبھی برابر کی میز سے کسی دوست کا قہقہہ بلند ہوا تو مجتبیٰ حسین نے اس دوست کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’صاحب! ذرا احتیاط سے قہقہہ لگایئے یہاں پلین کا ٹکٹ رکھا ہے ۔ اگر خدانخواستہ اڑجائے تو…؟‘‘ ۔ اس جملے کو سنتے ہی شاذ نے پلین کا ٹکٹ اٹھایا اور غصہ میں کرسی سے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے ۔ اس واقعہ کے بعد دونوں دوستوں کے مراسم اس وقت استوار ہوئے جب مجتبیٰ حسین نے مزاح نگاری شروع کی ۔ شاذ تمکنت کی شخصیت پر لکھے گئے مجتبیٰ حسین کے اس دلچسپ مضمون کو پڑھنے کے بعد میں نے انھیں انٹرنیٹ پر تلاش کیا ۔
مجتبیٰ حسین نے اپنے مضمون کا اختتام کچھ اس طرح کیا ہے ’’اب شاعری کی بساط الٹ چکی ہے ۔ یقیناً وہ ہمارے آگے مشعل سی لئے چلتا تھا ۔ ہم نے اس کا نام بھی جانا ، اس سے اس کا کلام بھی سنا مگر یہ نہیں پوچھا کہ بھیا اپنے دل میں کون سا غم چھپائے پھرتے ہو ۔ کچھ اتا پتا اس غم کا بھی دیتے جاؤ ۔ یہ اجنبی اور گمنام سا غم تمہارے جی کو کہاں سے لگ گیا ۔ مگر اب تو پوچھنے کا وقت بھی نکل چکا ۔ عرصہ سے شاذ ایک ٹھہرا ہوا دریا تھا اور بڑی دیر سے چپ تھا ۔ شاذ کو جتنا یاد کرتا ہوں اسی کا ایک شعر بار بار یاد آتا ہے  ۔ ؎
یہی تجھ سے اپنا واسطہ یہی تھی حیات معاشقہ
تری خلوتوں کے شریک تھے تری انجمن سے چلے گئے
بہرحال اسے حسن اتفاق کئے کہ ’’انتساب‘‘ کی ایک چھوٹی سی غلطی کی بدولت مجھے اردو ادب کی دو عظیم شخصیتوں اور ان کے ادبی کارناموں سے متعارف ہونے کا موقع ملا ۔