شادی ہے فطری حاجت!

حیلے بہانوں سے ٹالنا مضر ۔ نبھانے کی سنجیدہ کوشش ضروری

 

عرفان جابری

آج کے دَور میں خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں جیسے انڈیا اور پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری نے بلاتخصیص مذہب و معاشرہ، غریب و متوسط حتیٰ کہ بالائی متوسط طبقے کیلئے بھی کئی معاشی و سماجی مسائل پیدا کررکھے ہیں جن کا مستقبل قریب میں کوئی ٹھوس حل مشکل نظر آرہا ہے (پچھڑے ممالک مثلاً لائبیریا، نائجر، موزمبیق، جنوبی سوڈان، اِتھیوپیا ، زمبابوے، وغیرہ کا مزید بُرا حال ہے)۔ معزز قارئین! میں آج ایک سماجی مسئلے پر میرے مشاہدات کے تبادلۂ معلومات کی کوشش کررہا ہوں، جس کا ہم شادی، نکاح، میریج جیسی مختلف اصطلاحوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ بالخصوص عام مسلمانوں میں یہ مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے، حالانکہ اَن گنت سماجی تنظیموں، اداروں حتیٰ کہ حکومتی سطح پر بھی لوگوں کی اس مسئلے میں مدد کرنے کی مساعی بلاتوقف جاری ہے۔
دنیا کی تمام قومیں کچھ کچھ فرق کے ساتھ یہ ضرور مانتی ہیں کہ خالق کائنات نے حضرتِ آدم ؑ(آج دنیا کی کثیر آبادی کی اصطلاح میں Adam) کی تخلیق کے بعد اُن ہی سے حضرتِ حو ّا ؑ (Eve) کی بھی تخلیق کرتے ہوئے جنسِ قوی اور جنسِ لطیف کی ایک فطری جوڑی مکمل کردی (بحوالہ قرآن مجید : سورہ نمبر 4 النسائ، آیت نمبر 1)۔ چنانچہ اُس انسانی جوڑے سے مردوں اور عورتوں کی آبادی بڑھتی گئی اور یہ سلسلہ قیامت تک رُکنے والا نہیں۔ اِن سطور سے ہم کم از کم دو باتیں اخذ کرسکتے ہیں : ایک یہ کہ مرد کیلئے عورت اور عورت کیلئے مرد یعنی دونوں کی جوڑی بننا عین فطرت ہے اور جو بات پر فطرت کے مطابق عمل کیا جائے اُس میں خود حضرتِ انسان کی بھلائی ہی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے؛ دوسری یہ کہ مرد اور عورت کی جوڑی بنانا یعنی اُن کو شادی؍ نکاح؍ میریج کے بندھن میں باندھنے کا بنیادی مقصد نسلِ انسانی کو آگے بڑھاتے رہنا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر جوڑے کو لازماً اولاد کی نعمت میسر ہوگی، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اِرشاد کا مفہوم ہے: ہم کسی کو ایک یا زائد اولاد نرینہ، کسی کو لڑکی یا لڑکیاں، کسی کو دونوں ملا کر دیتے ہیں اور کسی کو بانجھ کردیتے ہیں (سورہ 42 الشوریٰ، آیات 49، 50)۔
مختصر یہ کہ لڑکا یا لڑکی جب جسمانی طور پر شادی کے قابل ہوجائیں تو اُنھیں اور اُن کے والدین و سرپرستوں کو اس فطری ضرورت کی عاجلانہ تکمیل کی کوششوں میں جُٹ جانا چاہئے۔ بہ الفاظ دیگر لڑکی اور لڑکے کو (انڈیا کا معاملہ ہو تو) 18 تا 25 سال کی عمر میں اِزدواجی بندھن میں بندھ جانا چاہئے۔ یہ بیان کرنے کی تو چنداں ضرورت نہیں کہ کسی بھی فرد کی زندگی میں شادی کرنا اہم موڑ ہوتا ہے جس کی بروقت تکمیل ہوجائے تو متعلقہ جوڑا اپنی مستقبل کی زندگی پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے نہ صرف اپنے مقصد ِ حیات کو پاسکتا ہے بلکہ سماج کیلئے بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم، آج عمومی معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ اکثریت نے شادی بیاہ کو مخصوص مادّی نشانوں کے حصول سے مربوط کررکھا ہے؛ مثال کے طور پر کسی خطہ میں لڑکا سوچتا ہے کہ فلاں تعلیمی ؍ تجارتی سطح تک پہنچنے اور فلاں فلاں مادی سہولتوں کی دستیابی پر شادی کروں گا؛ کہیں لڑکیوں میں ایسی سوچ پنپنے لگی ہے کہ 18 تا 22 سال ہمیں شادی کے بندھن میں نہیں پھنسنا ہے، کیونکہ وہ ازدواجی تقاضوں کو پورا کرنے سے گھبراتی ہیں، اور اگر کسی طرح شادی پر آمادہ ہوجائیں تو اولاد کو ٹالنے کے غیرفطری جتن کے فراق میں رہتی ہیں۔ نیز عصری ٹکنالوجی کی وجہ سے ’گلوبل ولیج‘ (عالمی گاؤں) کے بعض منفی اثرات بھی ازدواجی بندھن کی ضرورت کو کھوکھلا بناکر پیش کررہے ہیں۔ مذکورہ بالا سطور کے پس منظر میں بالخصوص لڑکیوں کے والدین اور سرپرست حضرات کو حکم ربانی (سورہ 17 النور ، آیت 32 ) پر غور کرنا چاہئے۔
انسان کیلئے جس طرح پیٹ کی بھوک مٹانا بقائے زندگی کیلئے اشد ضروری ہوتا ہے، لگ بھگ اُسی طرح بالغ افراد کو جنسی ضرورت کی تکمیل پر بھی مساوی توجہ دینا پڑتا ہے۔ تاہم، اگر اس ضرورت کو جائز طریقے سے پورا نہ کیا جائے تو پورے سماج میں معاشرتی فساد پھیل جائے۔ چنانچہ تمام تہذیبوں؍ مذاہب میں زنا بہ رضامندی، زنا بالجر، ناجائز تعلقات کی نہ اجازت ہے اور نا ہی گنجائش (قرآنی حوالہ جات: سورہ 17 بنی اسرائیل ؍ الاسراء ، آیت 32؛ سورہ 24 النور ، آیت 2 )۔ اُمت محمدی (ﷺ) کیلئے تو ’’النکاح من سنتی‘‘ کے الفاظ والی حدیث شریف (البخاری ، نمبر 5063 ۔ مسلم ، نمبر 1020۔ سنن ابن ماجہ ، نمبر 1846) مرد و عورت کی ایک دوسرے کیلئے ضرورت کا عملی نمونہ ہے ۔ اتنے واضح دلائل موجود ہونے کے باوجود فی زمانہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں بلکہ بڑی تعداد میں والدین و سرپرستوں نے شادی جیسی فطری حاجت کے معاملے عجیب روِش اختیار کررکھی ہے، کھوکھلے معیارات و کسوٹیاں قائم کرلئے گئے ہیں، جہیز اور جھوٹی شان کی لعنت نے بہت آسان معاشرتی عمل کو پیچیدہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ لگ بھگ ہر ٹاؤن، ہر شہر، ہر خطے میں ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی خاصی تعداد ہوچکی ہے جو بڑی عمریں ہونے کے باوجود ہنوز فطرت کے مطابق عملی زندگی شروع نہیں کرپائے، یا پھر بڑی عمروں میں شادیاں کررہے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی 25 سال کی عمر تک اَن بیاہی رہے، اور کوئی لڑکا 30 سالہ ہونے تک شادی نہ کرے تو عملاً یہی مطلب ہوا کہ وہ سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد تقریباً اتنے ہی سال کی مدت اہم فطری ضرورت (شادی) کے بغیر گزار چکے ہیں۔ آج فتنوں سے بھرپور زمانے میں ایسے کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوں گے جو کسی بھی وجہ سے شادی میں تاخیر پر نہ پاکدامنی چھوڑتے ہیں اور نا ہی فطری حاجت کی تکمیل کیلئے کوئی غیرفطری طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شادی کی ذمہ داری سنبھالنے کی فطری عمر کو پہنچنے کے بعد جو کوئی ازدواجی بندھن سے دور ہی رہے، اُسے مشکوک سمجھ لیا جائے۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حیلے بہانوں سے اہم فطری حاجت کو ٹالنا ، اور اس کیلئے نفس کو مارتے رہنا دانشمندی نہیں بلکہ صحت مند مرد ؍ عورت کا غیرشادی شدہ رہنا نامکمل زندگی کے مترادف ہے، جو نہ خالق کائنات کا منشاء ہے اور نا ہی سوسائٹی کیلئے ٹھیک ہے!
آج کل معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ دُنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے شاید جوانی میں ایسی عملی ترتیب ناگزیر قیاس کرلی کہ پہلے وطن میں گرائجویٹ بنیں، پھر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، پھر موٹرنشین اور صاحب ِ جائیداد ہوجائیں … پھر اس کے بعد ہی شادی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لائق بن سکتے ہیں۔ بے شمار نوجوانوں کی ایسی سوچ انھیں 30 سال یا زائد عرصہ تک غیرشادی شدہ رکھتی ہے۔ یوں وہ بلاشبہ اچھی جاب اور مالی حالت کے حامل بن سکتے ہیں لیکن اس دوران ’’کیا گل کھلاتے رہے‘‘ وہ تو اُن کی عملی زندگی شروع ہونے پر پتہ چلتا ہے۔ آج معاشرے میں ایسے کئی نوجوانوں کی شادیاں معیوب وجوہات کے سبب ناکام ہورہی ہیں! اعلیٰ تعلیم کی جستجو کرنا قابل رشک بات ہے، نوجوانوں کا پڑھائی اور نوکری کیلئے بیرون ملک جانا اور پسند کے مطابق کسی بھی جگہ مستقل سکونت اختیار کرلینے میں کچھ قباحت نہیں، مگر ان تمام مرحلوں میں فطری حاجت کو بوجھ سمجھ کر ٹالتے رہنا کئی بُرائیوں کو دعوت دینا ہے۔
بعض قارئین کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ اِس دنیا میں کئی مرد اور عورتیں ایسے گزر چکے جنھوں نے اچھی عمر پائی، بہت نام کمایا، بارعب شخصیتیں کہلائے لیکن مجر ّد (غیرشادی شدہ) ہی رہے، بلکہ فی زمانہ بھی اس طرح کے متعدد لوگ موجود ہیں ؛ تو پھر بروقت شادی نہ کرنا یا پھر مجرد ہی رہ جانا کسی فرد کیلئے کیونکر نامناسب ہوسکتا ہے؟ بے شک، ماضی اور حال میں زندگی کے ہر شعبے میں ایسی شخصیتوں کی مثالیں دستیاب ہیں، لیکن ہم کم از کم دو بڑی وجوہات کی بناء اُن کے اِس پہلو کو قابل تقلید، قابل ستائش، قابل رشک نہیں سمجھ سکتے ہیں: اول، مجرد رہنا قانونِ فطرت کے خلاف عمل ہے اور مرد و زَن کی جوڑی کے تخلیقی مقصد کے منافی بھی؛ دوم، مجرد شخصیت کو حقیقی معنوں میں کبھی سمجھ نہیں آسکتا کہ ’فیملی‘ کس چڑیا کا نام ہے، اُس کے تقاضے کیا ہوتے ہیں، اُسے نبھانا کیونکر ضروری ، کتنا آسان اور کتنا مشکل ہوتا ہے؟ چنانچہ ایسی شخصیتیں اکثر و بیشتر خودسری میں مبتلا ہوکر اپنے شعبے کی عجیب ہستی بن جاتی ہیں، جن کے رویہ سے کسی مرحلے پر لوگوں کو ’نامناسب‘ خوف ہونے لگتا ہے!
اس تحریر کا اختتام چند مثالوں کے ساتھ کرتا ہوں کہ بڑا منصب چاہیں تو کم عمری میں بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؛ اور بڑے منصب پر فائز رہنا اِزدواجی زندگی گزارنے اور اپنی فیملی کو آگے بڑھانے میں مانع نہیں ہوتا۔ آسام گن پریشد کے لیڈر اور سابق چیف منسٹر آسام پرفلا کمار مہنتا نے 1988ء میں ریاستی وزارتِ اعلیٰ پر فائز رہتے ہوئے ڈاکٹر جیہ شری گوسوامی کے ساتھ شادی کی، جن سے انھیں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ جنوری 1990ء میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ہاں جب پہلی بیٹی (بختاور ) پیدا ہوئی، تب پی پی پی لیڈر پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز تھیں۔ برطانوی سیاستدان ٹونی بلیئر مئی 2000ء میں جب اپنی شریک حیات چیری بلیئر سے چوتھے بیٹے کے باپ بنے، تب وہ وزیراعظم برطانیہ تھے۔
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com