شادی کے بعد ماں باپ کی خدمت

سوال : ایک بہت ضروری مسئلہ درپیش ہے اس کا جواب جاننا اشد ضروری ہے ۔بیوی بچوںکی ضروریات پوری کر کے زید اپنے والدین کی خدمت میں اس غرض سے جاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو ان کی خدمت کروں گا، ان کے کام آؤں گا ۔ اگر وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے تو بیوی بچوں کے ساتھ ناانصافی یا ان کی حق تلفی ہوگی؟کیا بیوی بچے آنے سے مرد آدمی پر سے والدین کی خدمت معاف ہوجاتی ہے ؟
سید کبیر احمد، مراد نگر
جواب : بہر صورت ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولاد پر لازم و ضروری ہے ۔ خواہ اولاد شادی شدہ ہو یا شادی شدہ نہ ہو جس طرح بیوی اور بچوں کے نان نفقہ اور ان کے ضروریات کی تکمیل اس پر واجب ہے۔ اسی طرح ماں باپ اگر ضرورتمند ہوں تو ان کے نان نفقہ اور ضروریات کی تکمیل بھی ان پر لازم ہوگی ۔ان کی خدمت اور اطاعت تو بہر صورت لازم ہی ہے ۔ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے سے وہ ماں باپ کے حقوق کی ذمہ داری سے عہد بر آ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں وہ بیوی بچوں کے حقوق سے غافل نہیں ہوسکتا۔

مصنوعی دانت اور وضو
سوال : آج کل مصنوعی دانت لگوانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ کیا یہ دانت لگوانے سے وضو ہوگا ؟ صرف چند دانت لگوانے سے وضو کا مسئلہ کیا ہے ؟
نام …
جواب : شرعاً وضو میں کلی کرنا مسنون ہے ۔ دانت کو صاف کرنا، مسوڑھوں تک پانی پہنچانا فرض نہیں۔ لہذا مصنوعی دانت لگائے جائیں تو وہ وضو کیلئے مانع نہیں ہیں۔ وضو ہوجائے گا۔

دوبارہ نکاح سے طلاق کا اختیار
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو طلاق دیدیا ، ہندہ عدت کے بعد دوسرے شحص سے شادی کرلی اور چند دن بعد وہ طلاق لے لی اور عدت گزر جانے کے بعد یعنی حلالہ ہوجانے کے بعد اپنے پہلے شوہر سے شادی کرلی۔ پوچھنا یہ ہے کہ اب ہندہ پر وہ تین طلاق جو پہلے شوہر نے دیئے تھے وہ کالعدم ہوگئے یا تا عمر باقی رہیں گے اور کیا پہلا شوہر دوسرے نکاح کے بعد تین طلاق دینے کا مستحق رہے گا۔
– 2 بکر نے زینب کو طلاق رجعی دی مگر صلح صفائی کے بعد اندرون عدت دونوں مل گئے اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ طلاق رجعی زینب پر برقرار رہے گی یا کالعدم ہوجائے گی اور کیا بکر کو پھر تین طلاق دینے کا حق رہے گا ؟
محمد خالد خان، پرانی حویلی
جواب : دریافت شدہ مسئلہ میں حلالہ کے بعد پہلا شوہر دوبارہ عقد کرے تو اس کو دوبارہ نکاح سے مزید تین طلاق کا حق حاصل ہوگا ۔ سابقہ تین طلاقیں حلالہ کے سبب ساقط ہوگئیں۔
اب رہا اگر کوئی ایک طلاق رجعی دے اور اندرون عدت رجوع کرے تو ایسے شخص کو آئندہ صرف دو طلاق کا حق رہے گا ۔ رجوع سے پہلی طلاق ساقط نہیں ہوگی۔

واجب غسل میں تاخیر نہ کریں
سوال : کوئی مسلمان رات کے کسی حصے میں ناپاک ہوجائے ، غسل واجب ہوجائے وہ اسی وقت غسل کرے؟ جبکہ مکان چھوٹا ہونے گھر کے تمام افراد کو معلوم ہونے کی گنجائش رہتی ہے، ایسی صورت میں شرعی احکام کیا ہیں۔ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ؟
عبدالقدوس،پھسل بنڈہ
جواب : کسی مرد یا عورت پر غسل واجب ہونے کی کوئی صورت طاری ہوجائے مثلاً احتلام ، صحبت وغیرہ تواسے غسل کرنا ضروری ہے اور کسی دو نمازوں کے وقفہ کے درمیان جیسے عشاء اور فجر کے درمیان حدث لاحق ہوگیا تو مستحب یہ ہے کہ فوراً غسل کرلیں ۔ اگر فوراً غسل کرنے میں کوئی دشواری ہو تو اسے اس وقت تک گنجائش ہے کہ کوئی فرض نہ چھوٹے ، کوئی نماز قضاء نہ کریں کیونکہ اگر وہ غسل کرنے میں اتنی تاخیر کرتاہے کہ نماز قضاء ہوجاتی ہے تو نماز کے قضاء کرنے کا گناہ ہوگا اور غسل جنابت میں تاخیر مناسب نہیں۔ صورت مسئول عنہا میں مسائل کا بطور حیاء گھر کے دیگر افراد کا خیال کرنا مستحسن ہے لیکن فرض چھوٹنے کا خوف ہو تو اب غسل کرنا ہی ہے اور یہ وہ حوائج بشریہ ہے جس سے ہر فرد بشر گزرتا ہے۔

نماز میں ایک سورہ چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھنا
سوال : چند دن قبل ہماری مسجد کے امام صاحب نماز فجر میں تشریف نہیں لائے، لوگوں نے مجھ سے خواہش کی تو میں امامت کیلئے آگے بڑھا اور پہلی رکعت میں سورۃ شروع کیا جو میں روزانہ پابندی سے پڑھتا ہوں، دورانِ قرات مجھے خیال ہوا کہ آگے بڑھ کر کہیں میں اٹک نہ جاؤں کیونکہ مجھے ایک دو جگہ شبہ ہورہا تھا تو میں نے اس سورہ کی بجائے سورہ یسین کی تلاوت شروع کردی اور تقریباً ایک رکوع پڑھ کر رکوع کیا اور دوسری رکعت میں سورۃ الاعلی پڑھا۔ نماز تو ہوگئی ، سب اپنے گھر واپس ہوگئے ۔ مغرب میں ایک صاحب ملے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے سورۃ کی پانچ چھ آیتیں پڑھنے کے بعد سورہ یسین شروع کردی اور آپ نے سجدہ سہو بھی نہیں کیا ۔ اس کے بعد سے مجھے خلش ہے کہ نماز فجر ادا ہوئی یا نہیں۔ اس بارے میں شرعی احکام سے آگاہ فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمدشریف، حکیم پیٹ
جواب : نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد کسی سورہ کی چند آیتیں پڑھ کر اس کو چھوڑ دینا اور دوسری سورت شروع کردینا مکروہ ہے۔ تاہم اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ عالمگیری جلد اول صفحہ 79 ء میں ہے: افتتح سورۃ وقصد سورۃ آخری فلما قراء آیۃ او آیتین اراد ان یترک السورۃ و یفتتح التی ارادھا یکرہ ، و کذا لوقراء اقل من آیۃ و ان کان حرفا۔
پس صورت مسئول عنہا میں نماز ادا ہوچکی، ایک سورت کی چند آیتیں پڑھ کر کسی شبہ یا اندیشے کی بناء دوسری سورت شروع کردینے سے سجدہ سہو کا لزوم نہیں ہوتا۔ البتہ اس طرح کا عمل شرعاً پسندیدہ نہیں۔

زمین کا گستاخ کو قبول نہ کرنا
سوال : میں نے کئی واعظین سے سنا ہے کہ گستاخی کرنے والوں کو زمین قبول نہیں کرتی اور وہ اس مسئلہ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک گستاخ کو دفن کیا گیا ہے۔ زمین نے اس کو واپس پھینک دیا، اس طرح کئی مرتبہ ایسا ہوا۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کونسا واقعہ ہے ، تفصیلی بیان کریں تو مہربانی ۔
محمد مزمل قریشی، نیو ملے پلی
جواب : عہد نبوی میں ایک نصرانی مسلمان ہوا، وہ کتابت جانتا تھا، کچھ دنوں تک کتابت وحی کی خدمت انجام دیتا رہا ، مگر پھر وہ مرتد ہوگیا اور یہ دعویٰ کرنے لگا کہ (معاذ اللہ ) جو کچھ اس نے کتابت کیا ہے (سورۃ البقرہ و آل عمران) اس کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کیلئے عبرت بنانا چاہا تو اسے موت دیدی ، جس کے بعد اس کے ساتھیوں نے اس کو دفن کردیا ۔ مگر اگلی صبح انہوں نے قبر کو کھلا ہوا اور اس کے مردہ جسم کو اوپر پڑے ہوئے پایا۔ انہوں نے خیال کیا کہ ضرور یہ کسی مسلمان کی کارروائی ہے۔
چنانچہ اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ گہری قبر کھودی اور اسے دفنادیا گیا ۔ مگر میت اگلی صبح پھر باہر تھی ۔ اس دن قبر کو مزید گہرا کیا گیا اور میت کو دفنادیا گیا مگر تیسری صبح پھر میت کا یہی حال تھا ۔ اس پر لوگوں نے یقین کرلیا کہ یہ کسی انسان کی کارروائی نہیں ہوسکتی اور اسے یونہی پڑا رہنے دیا۔ البخاری 624/60 ، کتاب المناقب، 25 حدیث 3617 الترمذی، 5 ، 597 حدیث 3663 ) اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کے اس عمل کے ذریعہ اس گستاخ مرتد کو لوگوں کیلئے عبرت بنایا۔

فجر کی سنت
سوال : میں نے حدیث شریف کی ایک کتاب میں فجر کی دو سنت کی فضیلت پڑھی تھی، اس کے بعد سے میں ہمیشہ فجر کی دو سنت کا اہتمام کرتا ہوں اور بسا اوقات میں ایسے وقت مسجد میں داخل ہوتا ہوں جبکہ امام صاحب نماز کے آخری مراحل میں ہوتے ہیں ۔ میں ایسے وقت کبھی جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں اور کبھی پہلے سنت پڑھ کر تنہا فرض پڑھ لیتا ہوں اور جب جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں تو سنت چھوٹنے کا مجھے کافی ملال ہوتا رہتا ہے ۔ اس ضمن میں اگر آپ میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی؟
نام …
جواب : اگر فجر کی نماز ہورہی ہے اور بعد میں آنے والے کو یہ یقین ہے کہ وہ سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوسکتا ہے تو اس کو چاہئے کہ فوراً دو رکعت سنت پڑھ لے پھر جماعت میں شریک ہوجائے اور جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو فرض کی جماعت میں شریک ہوجائے ۔ عالمگیری ج : 1 ص : 53 میں ہے ’’و یکرہ النفل اذا اقیمت الصلوۃ الاسنۃ الفجر ان لم یخف فوت الجماعۃ‘‘۔بعض ائمہ کے پاس فرض نماز شروع ہونے کے بعد کوئی سنت خواہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو پڑھنا درست نہیں ۔ صرف احناف کے پاس سنت فجر کی حد تک یہ رعایت ہے کیونکہ سنت فجر کی تاکید زیادہ آئی ہے۔

ناپاکی اور اذان کا جواب دینا
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ اذان کا جواب دینا ضروری ہے۔ بسا اوقات آدمی کو غسل کی ضرورت لاحق رہتی ہے ۔ ایسی صورت میں بھی اذان کا جواب دینا لازم ہے یا نہیں ؟ اسی طرح گھر میں خواتین کبھی ناپاکی کی حالت میں رہتی ہیں تو ان کیلئے کیا حکم ہے ؟
محمد مدثر، ریتی باؤلی
جواب : اذان سننے والے پر اس کا جواب دینا واجب ہے ، اگرچہ وہ جنبی ہو یعنی اسکو غسل کی حاجت ہو البتہ حیض و نفاس والی عورتوں پر اذان کا جواب دینا نہیں ہے۔ جنبی (یعنی جس کو غسل کی ضرورت لا حق ہو) کا اذان دینا منع ہے۔ اذان کا جواب دینا منع نہیں۔ در مختار جلد اول کتاب الصلاۃ باب الاذان ص : 427 میں ہے : (و یجیب) وجوبا وقال الحلوانی ندبا والواجب الاجابۃ بالقدم (من سمع الاذان) ولو جنبالاحائضا و نفساء اور ردالمحتار میں ہے : (ولو جنبا) لأن اجابۃ المؤذن لیست بأذان۔

مہر کا تعین
سوال : اگر کوئی شخص اپنے لڑکے کی جانب سے مہر نقد یا سونا کی شکل میں یا جائیداد کی شکل میں اپنی ذاتی ملکیت سے شادی کے وقت ادا کرے تو کیا شریعت میں جائز ہے۔ آج کل دولہا کمانے کے قابل ہو یا نہ ہو مہر ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں یا نہ ہو مہر کا تعین سرپرست اور والدین ہی کرتے ہیں ؟
محمد قائم علی ، نامپلی
جواب : لڑکی کے عقد کے وقت مہر مقرر کرنے کے بعد اس کی ادائی عاقد (لڑکے) پر ہے۔ اس کی طرف سے والد یا اور کوئی بھی مہر ادا کرے تو شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں۔ لڑکی کا مہر ادا ہوجائے گا۔ لڑکے کی استطاعت کے موافق مہر مقرر ہونا چاہئے ۔ تاہم اگر کسی کے رشتہ دار زائد مہر مقرر کرنے پر راضی ہوجائیں اور بوقت عقد، عاقد (لڑکا) اس مہر پر راضی ہوجائے تو ادائی لازم ہوجائے گی۔