شادی میں تاخیر:معاشرے میں بگاڑکا سبب

شادی ایک پاکیزہ اور مقدس بندھن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کام وقت پر کیا جائے تو ہی اچھا لگتا ہے۔ اسی طرح شادی بھی اگر مناسب وقت پر کی جائے تو بہتر ہے۔ اس سے وجود میں آنے والا خاندان اپنے فرائض بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے۔ نیز وقت پر شادی کرنے سے بہت سے ایسے مسائل سے بھی بچا جاسکتا ہے جو تاخیر سے شادی کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہمارے یہاں موجودہ معاشرہ میں تاخیر سے شادی کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وہ ملازمت کرنا چاہتی ہیں، خودمختار بننا چاہتی ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی تعلیم کے دوران شادی نہیں کرنا چاہتیں۔ کچھ والدین بھی سمجھتے ہیں کہ بچیاں اچھی طرح ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوجائیں تبھی ان کی شادی کی جائے۔

دوسرے کئی مسائل کی طرح بیروزگاری بھی ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بعض اوقات مناسب نوکری ملتے ملتے کئی سال گذر جاتے ہیں۔ تمام والدین کی یہی خواہش ہوتی ہیکہ ان کی بیٹی کو کوئی برسرروزگار رشتہ ملے مگر ان کی توقع کے مطابق رشتہ ملنے میں بھی تاخیر ہوجاتی ہے۔ شادیوں میں تاخیر کی ایک اہم وجہ لڑکا اور لڑکی دونوں کے والدین کے معیار اور حد سے بڑھی ہوئی توقعات اور امیدیں ہیں۔ والدین اپنی اولاد کے لئے بہتر سے بہتر شریک حیات کی تلاش کرنے کی جستجو میں کئی معقول اور قابل قبول رشتے ٹھکرا دیتے ہیں نتیجہ میں بچیوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے لیکن ان کا معیار نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ تب جاکر والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور موزوں رشتے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ شادی میں تاخیر کی ایک اہم وجہ جہیز اور شادیوں میں بے جا اخراجات بھی ہیں۔

والدین اپنی اولاد خصوصاً بچیوں کے لئے ساری زندگی پیسے جوڑتے ہیں تاکہ ان کا جہیز بنایا جاسکے، لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کے مسائل کو مزید بڑھا دیتی ہے کیونکہ اس وقت انہیں برسوں سے کی گئی تیاری ادھوری لگتی ہے کیونکہ آج کل ایک متوسط طبقے میں بھی لڑکی کی شادی میں چار سے پانچ لاکھ روپئے خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایسی مہنگائی میں جہاں سبزیوں کے دام بھی آسمان کو چھو رہے ہیں اس میں اتنے روپئے جٹانا ان کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ہماری نوجوان نسل شادی کو ایک بوجھ سمجھنے لگی ہے اس لئے وہ جتنے دن ممکن ہے خود کو اس سے دور ہی رکھنا چاہتی ہے۔ انہیں لگتا ہیکہ اگر ان کی شادی ہوگئی تو بے جا روک ٹوک ہوگی۔ انہیں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کی آزادی نہیں ہوگی اور جب وہ شادی کرنے کو آمادہ بھی ہوتے ہیں تو شریک حیات کے انتخاب کے متعلق بھی ان کے بے جا مطالبات کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔ والدین ان کی پسند کی لڑکی یا لڑکا ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح زندگی کے کچھ اور بیش قیمتی سال رائیگاں ہوجاتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ یہ زندگی گذارنے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور ایک اچھی اور خوشحال زندگی گذارنے کا ضابطہ فراہم کرتا ہے۔ دین اسلام بھی شادی میں تاخیر کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ اس سے معاشرہ میں اخلاقی پستی اور بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ والدین کا فرض ہیکہ وہ اولاد کو پڑھائیں، ان کی تربیت کریں اور مناسب وقت پر ان کی شادی کریں کیونکہ اسی میں معاشرے کی بھلائی ہے اور دینی اعتبار سے بھی اسی میں فلاح ہے۔