شائستگی اور ایمان داری

میرا کالم            سید امتیاز الدین
کسی بھی ملک کی پہچان اور اُس کے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت اُس ملک کے رہنے و الوں کے شائستہ اور ایماندار ہونے سے کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ انگریزوں نے ہمارے ملک پرا یک صدی تک حکمرانی کی اور بہت ظلم و ستم ڈھائے لیکن ساری دنیا میں اُن کا ادب (Literature) اور اُن کی ایمانداری مشہور تھی ۔ انگلستان میں بنی ہوئی ہر چیز لوگ آنکھ بند کر کے خریدتے تھے کیونکہ اُس میں کبھی دھوکہ نہیں ہوتا تھا۔ انگریزوں نے ہمارے ملک کا نظم و نسق اتنا عمدہ رکھا تھا کہ آزاد ہندوستان کی نئی حکومت کو کام سنبھالنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی ۔ اگرچہ انگلستان میں آج بھی بادشاہت باقی ہے لیکن اُن کا طور طریق جمہوری ہے ۔ ہم نے بھی جمہوریت کو اپنایا لیکن ہماری جمہوریت آج کے دور میں جو رنگ دکھلا رہی ہے وہ نہایت افسوسناک ہے ۔ جب پانچ سال میں ایک مرتبہ الیکشن ہوتے ہیں تو تمام پارٹیاں ایسے ہتھکنڈے اپناتی ہیں کہ انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے ۔ بہت عرصہ پہلے ہم نے اخبار میں ایک کارٹون دیکھا تھا ۔ کارٹون کچھ یوں تھا کہ ایک چور کسی گھر سے بہت سامال ایک تھیلے  میں ڈال کر نکل رہا ہے لیکن تھیلہ اتنا وزنی ہے کہ وہ اُس سے سنبھالا نہیں جارہا ہے ۔ ایسے میں ایک دوسرا چور اُس کے قریب آتا ہے اور پوچھتا ہے ’’بھائی ! کیا کچھ مدد کروں ؟ ‘‘ پہلا چور چونک جاتا ہے اور نہایت غصے سے کہتا ہے ’’چل ہٹ ! چور کہیں کا ‘‘۔ آج کل آزادیٔ تحریر و تقریر اتنی بے لگام ہوگئی ہے کہ ہر پارٹی اپنی تعریف سے زیادہ دوسری پارٹی کی مذمت کرتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر ایک کو جیتنے کی امید سے زیادہ ہارجانے کا خوف ہے ۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس یو پی میں متحد ہوکر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مایاوتی کی بی ایس پی اور بی جے پی بھی الگ الگ اپنا پرچار کر رہے ہیں۔ تینوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ ہر ایک کو اپنی خوبیاں بیان کرنے سے زیادہ دوسرے کی برائیاں بیان کرنے کی پڑی ہے۔ پردھان منتری نے ہندوستان کے انتہائی قابل ماہر معاشیات اور کم سخن وزیراعظم منموہن سنگھ پر طنز کیا اورایک عجیب طرح کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی یو پی اے حکومت میں کئی گھٹالے ہوئے لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ پر کوئی داغ نہیں لگا۔ اُن پر کسی نے ذمہ داری لینے کا مطالبہ نہیںکیا ۔ باتھ روم میں رین کوٹ پہن کر نہانے کا ہنر ڈاکٹر صاحب یعنی منموہن سنگھ ہی جانتے ہیں ۔ منموہن سنگھ خاموش رہے لیکن کانگریس اور دوسری جماعتوں نے اس پر سخت اعتراض کیا ۔ راہول گاندھی نے کہا کہ پردھان منتری کو دوسروں کے باتھ روم میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُدھر بی جے پی کا کہنا ہے کہ پردھان منتری کی باتھ روم میں رین کوٹ پہن کر نہانے والی بات بالکل صحیح ہے ۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نادر جملہ اب ایک محاورہ بن سکتا ہے ۔ ہم محاوروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن ایک مشہور محاورہ ہم نے اکثر سنا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ نوٹ بندی کو لے کر ساری پارٹیاں حکومت کو برا بھلا کہنے میں لگی ہیں۔ اکھلیش یادو بار بار ووٹروں کو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ بندی نے آپ کو لائین میں لگادیا ۔ لائین میں جن لوگوں کی جان گئی اُن کے خاندانوں کو معاوضہ ہم نے دیا ۔ راہول گاندھی نے بھی نوٹ بندی سے ہونے والے نقصانات کو اپنا مستقل موضوع بنایا ۔ انہوں نے کئی بار مودی جی کی نقل اتاری اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں ایسی راز کی باتوں کا انکشاف کروں گا جس کے بعد زلزلہ آجائے گا ۔ انہوں نے وہ باتیں تو نہیں بتائیں لیکن اس کے باوجود دہلی اور شمالی ہند میں سے جھٹکے ضرور محسوس ہوئے ۔ اکھلیش یادو جو اپنے خاندانی جھگڑوں کے باوجود بڑی ہمت سے چناؤ لڑ رہے ہیں، بی جے پی اور بی ایس پی دونوں پر حملے کر رہے ہیں ۔ مودی جی سے وہ کہتے ہیں من کی بات آپ بہت کرچکے ، اب کام کی بات کیجئے ۔ مایاوتی کو وہ بوا جی کے نام سے پکارتے ہیں اور بڑے ادب سے اپنے جلسوں میں کہتے ہیں کہ بوا جی سے خبردار رہیئے۔ پتہ نہیں بوا جی کب کیا کر بیٹھیں۔ ایک اور بات جو ہمارے لئے باعث حیرت ہے وہ یہ کہ نوٹ بندی کے بعد سب کی جیب خالی ہوگئی اورالیکشن کے عطیوں پر بھی پابندی ہے ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ تمام امیدوار روپیوں کی قلت کی وجہ سے پیدل پھر کر عوام کے جلسوں سے خطاب کریں گے ۔ رات کے جلسوں میں پٹرومیکس اور قندیلوں کا انتظام ہوگا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیڈرس ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹرس میں دورے کر رہے ہیں۔ امیت شاہ جی کا ایک مستقل ہیلی کاپٹر ہے اور وہ بھی دھواں دھار تقریریں کر رہے ہیں۔ جب 11 فروری کو یو پی الیکشن کا پہلا مرحلہ ہوا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ سب سے زیادہ ووٹ انہی کو ملے ہیں۔ اس پر مایاوتی نے کہا کہ سب سے زیادہ ووٹ اُنہی کو ملے ہیں اور امیت شاہ غلطی سے اُن کی پارٹی کے ووٹوں کو اپنے ووٹ سمجھ رہے ہیں۔ اُدھر مودی جی کہتے ہیںکہ ملائم سنگھ یادو کے بیٹے کے پاس پانچ کروڑ کی کار ہے جبکہ اُن کے پاس ایک بھی نہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج سے کئی سال پہلے کسی لیڈر نے کوئی ایسی بات کہہ دی تھی جو آج کے تناظرمیں اسے نقصان پہنچاسکتی ہے۔ تو نہ جانے کس کے اشارے پر اسے ٹی وی پر تازہ بتاکر پیش کیا جارہا ہے تاکہ لوگ اس لیڈر یا پارٹی کے خلاف ہوجائیں۔ الیکشن سے پہلے کہا گیا تھا کہ پرینکا گاندھی بھی الیکشن کے جلسوں میں حصہ لیں گی لیکن نہ جانے کیا بات ہوئی کہ وہ کسی جلسے میں دکھائی نہیں دیں۔

اس الیکشن میں سب سے عجیب بات جو سننے اور دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ یو پی کے بعض علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں مسلمان ووٹرس ہیں ۔ بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی نے بہت بڑی تعداد میں یعنی تقریباً ایک تہائی مسلم امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ بی جے پی کی طرف سے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں ہے ۔ حکمت عملی یہ ہے کہ ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور فائدہ بی جے پی کو ہوگا ۔ ہم کو یہ جان کر اور بھی تعجب ہوا کہ مسلمانوں کے تعلق سے بعض ٹی وی چیانلس کی معلومات ہم سے بھی زیادہ ہیں۔ ایک ٹی وی چیانل میں بتایا جارہا تھا کہ بریلوی مسلک کے مسلمان فلاں پارٹی کے حق میں ہیں اور دیوبندی مسلک کے مسلمان فلاں پارٹی کو ووٹ دیں گے ۔ ادھر تین طلاق کے مسئلہ کو بھی ایک موضوع بنایا جارہا ہے ۔ ہمیں کسی کی جیت یا ہار سے کچھ لینا دنیا نہیں ہے لیکن اس بات کا خدشہ ضرور ہے کہ مسلم ووٹ اس افراتفری میں کہیں اپنی اہمیت کھو نہ دے ۔ ایسے میں ابھی کل ہم نے ایک شاعر کو ٹی وی کے ایک چیانل پر دیکھا جوا یک نظم سنا رہا تھا ۔ نظم کا بنیادی خیال تھا کہ میں ہندوستانی مسلمان ہوں۔ میں آزاد خیال ہوں اور کسی پارٹی کے بس میں نہیں ہوں۔ اس لئے کوئی مجھے ووٹ بینک کے طور پر استعمال نہ کرے ۔ سنا ہے کہ شاعر ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہے اور شوقیہ شعر کہتا ہے ۔ بہرحال ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ مسلم ووٹ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے یا نہیں۔
ہم کوایک اور بات سے بھی تعجب ہوا کہ بابا رام دیو جو یوگا گرو تو ہیں لیکن انڈسٹری میں خوب نام کما رہے ہیں۔ انہوں نے ووٹ دینے کے بعد کچھ عجیب و غریب پیش قیاسیاں کیں جن کا مطلب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
قصہ مختصر جس انداز سے آج کل انتخابات ہورہے ہیں، ان سے کچھ اچھے اشارے نہیں مل رہے ہیں ۔ ابھی سے ’’چناوی دنگل‘‘ کی اصطلاح عام ہورہی ہے ۔ کیا پتہ آنے والے دنوں میں ’’چناوی مقتل‘‘ کی اصطلاح نکل جائے اور نتائج سے پہلے ہی امیدوار دست و گریباں ہوجائیں اور ووٹوں کی اکثریت کی بجائے غنڈوں کی اکثریت کے سہارے نتائج برآمد ہوں۔
کچھ یہی حال ہمارے ملک سے رخصت ہوتی ہوئی ایمانداری کا بھی ہے ۔ کروڑپتی ، ارب پتی قسم کے حضرات ہزاروں کا بڑا غرق کر کے ، سوئیز بینک میں اپنا کھاتہ کھول کر کسی اور ملک میں جا کر آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ نہ اُن کا پیسہ وطن میں واپس آتا ہے اور نہ وہ خود ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ابھی حا لیہ عرصہ میں نوٹ بندی کے بعد کتنے لوگ کرو ڑوں روپیوں کے پرانے نوٹوں کے ساتھ پکڑے گئے ساری دنیا جانتی ہے ۔ ٹاملناڈو کی سابق چیف منسٹر آنجہانی جئے للیتا کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو ریمارکس کئے ہیں وہ ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔ ششی کلا نٹراجن کو چیف منسٹر بننے کی جلدی کیوں تھی ، یہ سب پر واضح ہوگیا ۔ 30 کیلو سونا ، آٹھ ٹن چاندی، بے حساب جائیدادوں کی مالک خاتون آج پچاس روپئے روزانہ کی مزدوری پر چار سال کی جیل کاٹنے پر مجبور ہیں اور موم بتی بنانے کا ہنر سیکھ رہی ہیں ۔ اے شمع تیری عمر طبعی ہے، ایک رات وہ کر گزار ردے اسے ہنس کر گزاردے۔ اگر آج جیہ للیتا زندہ ہوتیں تو نہ جانے اُن کا کیا حال ہوتا ۔ ویسے آج بھی مرینا بیچ پر اُن کی یادگار مرجع خلایق بنی ہوئی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہماری قوم آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعات سے سبق لے ۔ ایمانداری اور شائستگی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ عزت اور نیک نامی سے بڑی کوئی دولت نہیں۔