سید حامد (سید حامد مرحوم کی یاد میں بطور خراج عقیدت)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
کچھ برس پہلے سابق مرکزی وزیر داخلہ سید سبط رضی کے گھر کوئی تقریب تھی ۔ میں اپنی عادت کے مطابق اور سید حامد صاحب ان کی اپنی عادت کے مطابق تقریب میں بروقت پہنچ گئے ۔ کسی نادان کا قول ہے کہ ’’جو اصحاب اپنے عہد کے اعتبار سے قبل از وقت یا بعداز وقت پیدا ہوتے ہیں وہ عموماً جلسوں میں بروقت پہنچ جاتے ہیں‘‘ ۔ میزبان تو خیر موجود تھے ہی لیکن مہمان البتہ خال خال تھے اور تھے بھی تو ایسے مہمان جن سے کم از کم میں تو اپنا منہ چھپانا ضروری تصور کرتا ہوں ۔ آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ دیکھا سید حامد صاحب دور سے چلے آرہے ہیں ۔ جن لوگوں نے سید صاحب کو چلتے ہوئے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ سید صاحب جب سینہ تان کر چلتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کا قد بلند ہوجاتا ہے بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کی خودی بھی بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ علامہ اقبالؔ کی طرح وہ صرف خودی کو بلند کرکے نشچنت نہیں ہوجاتے بلکہ قد کو بلند کرنا بھی ضروری تصور کرتے ہیں ۔ وہ میرے پرانے کرم فرماؤں میں سے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اتنا ہی کرم فرماتے ہیں جتنا کہ ان کے مزاج کی شائستگی اجازت دیتی ہے ۔ اتنا کرم نہیں فرماتے جس کا میں طلب گار یا متمنی رہتا ہوں ۔ میں ان کے پاس گیا تو حسب معمول بڑی شفقت ، محبت ، خلوص اور نرمی وغیرہ سے پیش آئے ۔ ایسی چیزیں ان کے پاس وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں ۔ ہم دونوں ایک گوشہ میں بیٹھ گئے تو ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں ۔ میں نے یونہی وقت گزاری کے لئے مخدوم محی الدین کے ایک عملی مذاق کا قصہ چھیڑ دیا ۔ اب جو سید صاحب اس واقعے کے ایک ایک پہلو پر بے ساختہ ہنسنے لگے تو میں خود حیران رہ گیا ۔ بہت دیر تک ہنستے رہے ۔ بعد میں ان کی ہنسی تھمی اورمحفل میں کچھ پسندیدہ مہمان آگئے تو میں کسی اور طرف چلا گیا اور وہ کسی اور طرف ۔ کچھ دیر بعد ایک شناسا مل گئے تو انھوں نے بصد اشتیاق مجھ سے پوچھا ’’ابھی آپ کی باتوں پر جو صاحب یہاں بیٹھے بے ساختہ ہنس رہے تھے کہیں خدانخواستہ وہ سید حامد تو نہیں تھے؟‘‘۔ میں نے کہا ’’آپ نے حد کردی ، آپ تو سید صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے‘‘ ۔ بولے ’’وہ تو میں جانتا ہوں لیکن جس طرح وہ تمہاری باتوں پر دھاڑیاں مار مار کر ہنس رہے تھے اس سے شبہ ہوا کہ شاید وہ سید حامد نہ ہوں ۔ سنا ہے کہ فرشتے اور سید حامد کبھی نہیں ہنستے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’خدا کے فضل و کرم سے فرشتوں کو دیکھنے کی نوبت تو خیر اب تک نہیں آئی البتہ سید حامد کو ضرور دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ بُرا وقت آن پڑے تو سید صاحب ہنس بھی لیتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ایسی صورتوں میں فرشتے بھی ایسا ہی کرتے ہوں‘‘ ۔

اس دن مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ سید حامد صاحب کے بارے میں لوگوں کو کیا کیا بدگمانیاں ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ وہ نہایت سنجیدہ ، متین ، بردبار بلکہ گمبھیر انسان ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ ہنسنے سے بالکل عاری ہوں ۔ میں نے انھیں جب بھی دیکھا تبسم زیرلب اور قہقہے کے درمیان ایک شائستہ ، سلیقہ مند ، مہذب اور خوشگوار ہنسی کی حد پر کھڑے ہوئے پایا ۔ تبسم کو قہقہے میں تبدیل نہیں ہونے دیتے کیونکہ ہنسی کے معاملہ میں وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کے قائل نہیں ہیں ۔ کبھی غفلت میں خلاف ورزی ہوجائے تو یہ ایک الگ بات ہے ۔ ایسی ایئرکنڈیشنڈ ہنسی میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ۔
سید حامد ، حکومت ہند کے سینئر آئی اے ایس عہدے دار رہ چکے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ انھیں جاننے کے لئے مجھے دو اور سینئر ترین آئی اے ایس عہدے داروں کی خدمات سے استفادہ کرنا پڑا ۔ میری مراد خواجہ عبدالغفور مرحوم ، سابق چیف سکریٹری حکومت مہاراشٹرا اور ہاشم علی اختر ، سابق سکریٹری حکومت آندھرا پردیش سے ہے ۔ خواجہ عبدالغفور تو خود مزاح نگار تھے اور آئی اے ایس عہدے دار ہونے کے باوجود بے ساختہ قہقہہ لگانے کو اتنا بُرا بھی نہیں سمجھتے تھے ۔ رشتے میں وہ سید صاحب کے سمدھی ہوتے تھے ۔ ان کے فرزند حسن غفور آئی پی ایس کی شادی سید حامد صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی ہے ۔ خواجہ عبدالغفور مجھے بہت عزیز رکھتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ کئی برس پہلے حسن غفور کی شادی کا جو استقبالیہ دہلی کے ’’کلاریجس ہوٹل‘‘ میں دیا گیا تھا اس میں بھی دیکھا کہ خواجہ عبدالغفور تو اپنے دوستوں میں گھرے قہقہے لگانے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف سید صاحب پوری متانت اور سنجیدگی کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ دلہن کے والد ہونے کے ناتے شاید انھوں نے عارضی طور پر یہ سنجیدہ طرز عمل اختیار کررکھا ہو لیکن بعد کی دوچار محفلوں میں بھی انھیں اسی پوز میں دیکھا تو میں نے غفور صاحب سے پوچھا ’’کیا بات ہے کہ سید صاحب ذرا کم ہی ہنستے ہیں؟‘‘ ۔ بولے ’’تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ، وہ خوب ہنستے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی ہنسی کی نوعیت الٹی ہوتی ہے یعنی ہم لوگ تو اپنی ہنسی کو اندر سے باہر نکال دیتے ہیں لیکن وہ اپنی ہنسی کو باہر سے اندر کھینچ کر اپنی ذات میں جذب کرلیتے ہیں‘‘ ۔ اور ان کی اس بات سے میں مطمئن ہوگیا ۔

دوسرے آئی اے ایس عہدے دار جن کی وساطت سے مجھے سید صاحب کو سمجھنے میں مدد ملی ، ہاشم علی اختر ہیں ، جنہوں نے سید صاحب سے علی گڑھ کی وائس چانسلری کا جائزہ حاصل کیا تھا ۔ وہ سید صاحب کے زبردست مداح اور معترف ہیں (آئی اے ایس برادری کی بعض مجبوریاں بھی تو ہوتی ہیں) ۔ ہاشم علی اختر اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر انھوں نے سید صاحب کے بجائے کسی اور سے علی گڑھ کی وائس چانسلری کا جائزہ حاصل کیا ہوتا تو شاید ان کے لئے یونیورسٹی کو چلانا بہت دشوار ہوجاتا ۔ دیکھا جائے تو یوں بھی سید صاحب علی گڑھ کے دو حیدرآبادی وائس چانسلروں یعنی پروفیسر علی محمد خسرو اور ہاشم علی اختر کے درمیان ’سینڈویچ‘ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اور سینڈویچ بننے کا جو کرب ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ اس وقت تک نہیں لگاسکتے جب تک کہ آپ بسوں کی تین افراد والی نشست پر خود ’سینڈویچ‘ بن کر بیٹھنے کا تجربہ نہ رکھتے ہوں ۔ پروفیسر محمد علی خسرو نے تو اپنے ’’انداز خسروانہ‘‘ سے یونیورسٹی چلائی لیکن سید حامد ٹھہرے آئی اے ایس عہدے دار ، وہ سرسید کی یونیورسٹی کو خود سرسید کے بتائے ہوئے راستہ پر چلانے کے خواہش مند تھے ۔ بتایئے یہ کتنی غلط بات تھی ۔ آپ علی گڑھ کی بات کرتے ہیں ۔ بہت لمبا عرصہ گزر جائے تو بعد میں آنے والے ایک عام سیّد کے لئے بھی اپنے پیشرو سیّد کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ یادش بخیر ! ایک زمانے کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں کسی نے مشہور کررکھا تھا کہ اگر خود سرسید بھی دوبارہ پیدا ہو کر علی گڑھ کے وائس چانسلر بن جائیں تو شاید وہ اس یونیورسٹی کو چلا نہ پائیں ۔ حالانکہ ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ ایک ہوائی جہاز چلانے والا سرکار تک چلا سکتا ہے بلکہ ہوائی جہاز سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سرکار چلالیتا ہے لیکن ان دنوں یونیورسٹی کو چلانے کے لئے ایک الگ ہی مہارت درکار ہوتی ہے ۔ نواب علی یاور جنگ پر جب ان کے دور وائس چانسلری میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو غالباً آر کے لکشمن نے ایک کارٹون بنایا تھا جس کا لب لباب یہ تھاکہ مستقبل میں دانشوروں اور ماہرین تعلیم کو یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر نہ بنایا جائے بلکہ اس کام کیلئے پہلوانوں اور باکسروں کی خدمات حاصل کی جائیں ۔

بہرحال سید حامد نے وائس چانسلری کی اور خوب دھڑلے سے کی ۔ دھڑلّے کا مطلب یہ کہ جب تک علی گڑھ کے وائس چانسلر رہے اپنی جان کو ہتھیلی پر سجائے رکھا ۔ آج تک کسی نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھنے کا اتنا لمبا ریکارڈ قائم نہ کیا ہوگا ۔ بڑے ہنگامے ہوئے ،گولی چلی ، مفاد پرستوں کے مفادات پر ضرب کاری لگی یہاں تک کہ یونیورسٹی بند ہوگئی ، مگر کھلی توایسے کھلی کہ بند ہونے کا نام نہ لیتی تھی ۔ طلبہ ہیں کہ چپ چاپ پڑھتے جارہے ہیں اور اساتذہ ہیں کہ پڑھاتے چلے جارہے ہیں (پٹّی نہیں بلکہ سچ مچ کی کتابیں) بظاہر مرنجان مرنج دکھائی دینے والے سید صاحب کے عزم ، حوصلے اور پختہ ارادے کی یہ ایک چھوٹی سی مثال تھی جو یونیورسٹی کے حق میں بہت بڑی ثابت ہوئی ۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ نہایت اصول پرست اور ایماندار آدمی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ایمانداری کا کوئی سرٹیفیکٹ اپنے پاس نہیں رکھتے ۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ پچھلے دنوں احباب کی محفل میں ایک سیاسی رہنما کی دیانت داری اور ایمانداری پر کسی نے انگلی اُٹھائی تو مذکورہ رہنما کے حامی نے برملا کہاتھا ’’آپ تو ان کی ایمانداری پر کوئی شک کر ہی نہیں سکتے ۔ کیونکہ ان پر اب تک بدعنوانیوں اور گھوٹالوں کے دس مقدمے چل چکے ہیں اور ماشاء اللہ ان سب سے باعزت بری ہوچکے ہیں ۔ آپ کو ان کی ایمانداری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا چاہئے ۔‘‘
ہمارے سید صاحب کی ایمانداری میں بس اسی بات کی کسر رہ گئی ہے کہ اپنی ایمانداری کا کوئی ثبوت اپنے پاس نہیں رکھتے حالانکہ زمانہ بڑا خراب ہے ۔ ثبوت کے بغیر کسی بات کو نہیں مانتا ۔ سید صاحب اصول پرست ایسے ہیں کہ کسی دوست کے کام کے لئے ان سے سفارش کرو تو پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں دوست کے کام سے ان کے کسی دشمن کو نقصان تو نہیں پہنچے گا ۔ ایک بار دشمن کی طرف سے مطمئن ہوجائیں تو تب کہیں جا کر وہ دوست کے فائدے کی بابت سوچتے ہیں ۔ اللہ اللہ کیا اصول پسندی ہے، حالانکہ فی زمانہ اصولوں کو توڑ دینا ہی سب سے اچھا اصول سمجھا جاتا ہے ۔ بلکہ جو شخص اصولوں کو نہیں توڑتا لوگ اسے ہی توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ سید صاحب کسی وجہ سے اب تک نہیں ٹوٹے یہ ایک الگ بات ہے ۔ پھر پائیداری بھی تو ایک چیز ہوتی ہے۔ خوب یاد آیا ایک زمانے میں مجھے احباب کے کاموں کے سلسلے میں صاحبان اقتدار سے سفارش کرنے کا ہوکا سا تھا ۔ دن بھر دوستوں کے کاموں کے لئے مارا مارا پھرتا تھا ۔ جب سید صاحب اسٹاف سلیکشن کمیشن کے صدر نشین تھے تو ایک دوست نے مجھ سے خواہش کی کہ میں ان کے بھائی کے تقرر کے سلسلے میں سید صاحب سے سفارش کردوں ۔ یہ جاننے کے باوجود کہ سید صاحب سفارش کو ناپسند کرتے ہیں میں نے اپنے دوست کے بھائی کی سفارش ان سے کردی ۔ انھوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کاغذ میرے ہاتھ سے لے کر رکھ لیا اور حسب عادت کوئی وعدہ نہ فرمایا ۔ پھر یوں ہوا کہ میرے دوست کا تبادلہ تریوندرم ہوگیا اور بعد میں وہ وہاں سے کسی خلیجی ملک میں چلے گئے ۔ گویا برسوں ان سے کوئی ربط ضبط نہ رہا ۔ ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے ، ان سے اچانک ملاقات ہوگئی تو دنیا جہان کی باتیں ہوئیں ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں ان کے بھائی کے تقرر کی بات کو تقریباً بھول چکا تھا ۔ خود ہی یاد دلایا ’’بھئی ! آپ کو یاد ہوگا کہ کئی برس پہلے آپ نے میرے بھائی کے سلسلے میں سید حامد صاحب سے سفارش کی تھی‘‘ ۔ میں نے کہا ’’مگر میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سید صاحب سفارش کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ میں کیا کرسکتا ہوں‘‘ ۔ اس پر میرے دوست نے کہا ’’آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ بھئی! میرے بھائی کا تقرر تو تبھی ہوگیا تھا ۔ گردش روزگار نے مہلت نہ دی کہ آپ کویہ خوش خبری سناتا ۔ ماشاء اللہ اب تک اسے چار ترقیاں بھی مل چکی ہیں ۔ کبھی سید صاحب سے ملاقات ہو تو شکریہ ادا کردیجئے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’بھیا! اب تو تمہارا بھائی چند برسوں میں ریٹائر ہونے والا بھی ہوگا ۔ میرا خیال ہے کہ اب تو اس کے ریٹائر ہونے کے بعد ہی سید صاحب کا شکریہ ادا کرنا مناسب ہوگا‘‘۔

ڈاکٹر خلیق انجم کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس تہنیتی تقریب کے انعقاد کے ذریعے مجھے سید صاحب کا شکریہ ادا کرنے کا موقع عطا فرمایا ورنہ میرے دل میں ایک خلش سی رہ جاتی ۔ بہرحال یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ سید صاحب کسی کی سفارش نہیں سنتے ۔ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مجھے کتابی چہروں ، کتابی باتوں اور کتابی حوالوں سے ہمیشہ اُنس رہا ہے ۔ مگر مجھے آج تک ایسا کوئی فرد نہیں ملا جو جو زبانی گفتگو بھی کرے تو یوں معلوم ہو جیسے کتاب پڑھ کر بول رہا ہے ۔ میں نے سید صاحب کے علاوہ کسی اور کو مطبوعہ گفتگو کرتے ہوئے نہیں سنا ۔ بخدا جب وہ تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں ، چاہے وہ انگریزی میں ہو یا اردو میں، ایسی نپی تلی مرصع اور سجی سجائی زبان بولتے ہیں کہ مجھے تو ان کی تقریر میں جا بجا فل اسٹاپوں اور کاماؤں (Commas) سے لے کر سیمی کولنوں (Semi Colons) تک کی آواز صاف سنائی دیتی ہے ۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ سید صاحب کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔ جو زبان وہ بولتے ہیں وہی زبان لکھتے بھی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ہر دو صورتوں میں ان کے قاری یا ان کے سامع کو بسا اوقات ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے (کم از کم مجھے تو آتی ہے) ۔ کتاب پڑھتے وقت ڈکشنری دیکھنے کو میں بُرا نہیں سمجھتا لیکن یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ ایک شخص تقریر کررہا ہو اور لوگ اس کے سامنے بیٹھے ڈکشنریوں کے صفحات الٹتے پلٹتے رہیں ۔ اس سے تقریر کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ لگے ہاتھوں اس بات کا انکشاف کرتا ہوں کہ پچھلے دنوں میں نے سید صاحب کا ایک مضمون پڑھا ہے جسے پڑھنے کے دوران میں مجھے ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ اس پر میں نے اپنے ایک دوست سے کہا ’’مجھے لگتا ہے کہ یا تو میری نجی لیاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یا پھر سید صاحب ہی عام فہم مضامین لکھنے لگے ہیں‘‘ ۔ بولے ’’مجھے تو اول الذکر کا اندیشہ بالکل ہی کم اور موخر الذکر کا امکان زیادہ نظر آتا ہے‘‘ ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو ۔

سب سے آخر میں ، میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر اصولاً سب سے پہلے ہونا چاہئے تھے ۔ ہمارے سید صاحب نہایت بے لوث ، بے نیاز اور صوفی منش انسان ہیں ۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے نہ تو گورنر بننے کی کوشش کی اور نہ ہی سفیر بننا گوارا کیا ۔ حد تو یہ کہ پارلیمنٹ میں جانے کی کوشش بھی نہیں کی حالانکہ ایرے غیرے تک وہاں اب جانے لگے ہیں ۔ علی گڑھ کی وائس چانسلری سے سبکدوش ہوئے تو حکیم عبدالحمید کی سرپرستی میں ہمدرد کے تعلیمی پروگرام سے وابستہ ہوگئے ۔ اب ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملک اور ملت کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں صرف ہوتا ہے ۔ اور یہ ان کی کوئی معمولی دین نہیں ہے ۔ ایک بار وائس چانسلر بننے کے بعد دوبارہ وائس چانسلر بننا بھی پسند نہ کیا ۔ مانا کہ اب وہ ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کے جلیل القدر عہدے پر فائز ہوگئے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اس سے ان کی عام تعلیمی تحریکوں اور سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وائس چانسلری چلانے کے لئے آدمی میں جن بے پناہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے شاید وہ چانسلری چلانے کے لئے درکار نہیں ہوتیں بلکہ صلاحیتوں کے نہ ہونے کو اور بھی مستحسن سمجھا جاتا ہے ۔

سید صاحب نے ملت کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے وہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی طرف دھیان دینے کی ہم جیسوں کو کبھی توفیق عطا نہیں ہوتی ۔ اس لئے کہ گھاٹے کے اس سودے میں قوم کا فائدہ مضمر ہے لیکن ہم جیسوں کو قوم کے فائدے سے کیا مطلب ! خدا تا دیر سید صاحب کو ہمارے درمیان تندرست توانا اور سلامت رکھے تاکہ ہم لوگ تو پوری بے فکری کے ساتھ کرنسی والی دولت سمیٹتے رہیں اور سید صاحب علم کی دولت آنے والی نسلوں میں بانٹتے رہیں ۔ تقسیم کاری ہمیشہ اچھی چیز ہوتی ہے ۔ ذرا دیکھئے تو سہی خاکہ ختم ہونے لگا ہے تو سید صاحب کے تعلق سے کتنی ہی اچھی اچھی باتیں ذہن میں آنے لگی ہیں ، مگر وہ جو غالب نے کہا ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
(1999)