سیاسی و سماجی اجتماعیت کے کئی ثمرات

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ

میرے دورہ امریکہ کے باعث قارئین سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور اب اس تعلق کو جوڑنے کی خوشی کے ساتھ عرض ہے کہ جب میں رخت سفر باندھ رہا تھا تو تلنگانہ ریاست کے قیام کیلئے سیاستدانوںکی دوڑ و دھوپ دہلی سے ریاست کی اسمبلی منتقل ہورہی تھی ۔ تلنگانہ بل پر مباحث کی تیاری کیلئے اسمبلی کو بھی تیار کیا جارہا تھا ۔ میری امید بندھ گئی تھی کہ امریکہ سے واپسی تک برسہا برس سے تلنگانہ عوام کے سینوں پہ پتھر کی سلوں کی طرح بیٹھے آندھرائی سیاستدانوں کا شکنجہ ڈھیلا پڑ جائے گا ۔ تلنگانہ عوام کی خواہش کروٹیں لینا ختم ہوں گی لیکن وطن واپسی پر تلنگانہ کو اسمبلی میں بحث و مباحث کے درمیان اپنی آزادی کی دعائیں مانگتا دیکھ رہا ہوں۔ تلنگانہ عوام کے دست و بازو آزمانے والوں کے مختلف پینترے بھی سامنے آرہے ہیں ۔ حکومت نے خاص کر چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے علحدہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو روکنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ تلنگانہ میں عوامی انقلاب لانے والوں کی باتوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ تلنگانہ تحریک کو کامیابی کے قریب لے جانے والے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ علحدہ تلنگانہ میں حکومت نے کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔

بگاڑ بڑھتا جارہا ہے، مسائل کا چنگل گھنا ہورہا ہے ۔ حکومت ہونے کے باوجود نہ کے برابر ہے۔ عوام کی زندگی مسلسل عذاب ناک ہورہی ہے ۔ وہ بھی کیسے دن تھے جب تلنگانہ تحریک اپنے عروج پر تھی اس سے وابستہ لیڈران عوام کے نور نظر تھے۔ تحریک کے پلیٹ فارم پر کئی قد آور شخصیتیں تھیں، اب ان میں سے چند ایک کے بارے میں مختلف شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ آخر لیڈر صاحبان اچانک اپنا چولہ کیوں تبدیل کرتے ہیں ۔ تحریک کے روح رواں کے سی آر کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں۔ بہرحال اس طرح کے تبصرے جاری رہنے کے دوران میں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو ایرپورٹ پر پہونچتے ہی لگیج اور ٹکٹ کیلئے چیک ان کرانے قطار میں کھڑے ہونا پڑا۔ ساتھی مسافروں نے بھی ایسے کئی قطاریں بنائے ایرلائینس کے کاؤنٹرس کے سامنے کھڑے تھے، جن مسافروں نے ایرلائینس کے اصولوں کے مطابق فی مسافر 23 کیلو گرام کے دو بیاگ اپنے ساتھ لائے تھے ، ان کی چیک ان ہونے میں کوئی دقت نہیں ہوئی جن میں میں بھی شامل تھا لیکن کچھ مسافر ایسے تھے

جنہوں نے اپنے مختصر سفر کیلئے ڈھیر سارا سامان ساتھ لایا تھا اور ایرلائینس عملہ انہیں ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔ مجبوراً یہ لوگ اپنے سامان کو کم کر کے انہیں ایرپورٹ چھوڑنے آنے والے رشتہ داروں کو واپس کر رہے تھے۔ یہ مسافر ایک ایرلائینس کے عہدیدار کی ہدایت پر عمل کرنے پابند ہیں تو ایک عام انسان اپنی فانی زندگی کے سفر کیلئے پل کی خبر نہیں سامان سو برس کا رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر طیارہ کا مسافر ایرلائینس کے اصولوں پر عمل کرتا ہے تو اس کا سفر آسان ہوتا ہے اور انسان اپنی زندگی کے سفر میں قدرت کے اصولوں پر عمل کرے گا تو بے شمار آسانیاں ہوسکتی ہیں اور دیگر انسانوں کیلئے بھی راحتیں نصیب ہوں گی۔ میرے لگیج اور چک ان کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد جب ایمیگریشن کاؤنٹر پر پہونچے تو اسکریننگ سے گزر کر سب مسافر طیارہ میں اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو کپتان نے اڑان کیلئے تیار ہونے کی اطلاع دی اور مسافروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سیٹ کے بیلٹ باندھ لیں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ مسافر اپنی منزل کو پہونچنے کیلئے کمر کس لیں۔

تمام مسافر کپتان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کمر کس لی یعنی سیٹ بیلٹ باندھ لیا تو یہ قابل غور بات ہے کہ زندگی کے سفر میں مصروف انسانوں نے بھی قدرت کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کے لئے کمر کس لیں تو اس کی زندگی کا سفر کتنا آسان ہوگا ۔ مختصر سفر پر روانہ مسافروں کو ان کی منزل تک پہونچانے والے کپتان کی ہدایات پر مسافروں کو سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے ۔ یہ کپتان ان مسافروں کو زندگی اور موت کے خوف سے بھی باخبر رکھتے ہوئے ہنگامی حالات میں طیارہ سے اترنے اور طیارہ کے دروازوں کو کھولنے کی بھی ہدایت دیتا ہے تو مسافر جن میں لیڈر بھی ہوتے ہیں سرکاری آفیسر اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں، کپتان کی ہدایت پر عمل کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں وہ اس طرح کا دیانتدارانہ مظاہرہ نہیں کرتے۔ تلنگانہ کی سرزمین پر بنائے گئے ایرپورٹ کے رن وے سے طیارہ دھیرے دھیرے اڑان کی طرف بڑھ رہا تھا ، اس کے ساتھ اس علاقہ کی کئی سیاسی ، معاشی عوامی مسائل بھی دوڑ رہی تھیں ۔

ٹیک آف کے بعد طیارہ جب آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش کرتا رہا اور کرہ ارض سے 38 ہزار فٹ بلندی پر اڑان بھرنے والے مسافر نشستوں کے عقب میں نصب ٹی وی اسکرین پر موسم کا حال طیارہ کی رفتار اور کس شہر اور کس ملک سے پرواز ہورہی ہے کا سارا نقشہ ملاحظہ کر رہے تھے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کی آسمانوں سے گزرنے والے طیارہ کے مسافروں کو زمین پر پائے جانے والے مسائل اور عوام کی مصیبتیں اور تکالیف کا احساس ہو نہ ہو لیکن مظفر نگر فساد متاثرین کیلئے چندہ دینے اور اکھٹا کرنے والوں کے حق میں دعا گوئی کے ساتھ یہ احساس ہورہا تھا کہ نیچے زمین پر ہر طرح کے انسان رہتے ہیں، وہ انسان بھی ہیں جو اپنی مکاری اور سیاسی مفاد پرستی کی خاطر دیگر انسانوں کو بے گھر کرتے ہیں ۔ تکالیف دیتے ہیں، فساد کرواتے ہیں اور جب مفادات بڑھتے تو پرندوں کا نہیں انسانوں کا شکار کرتے ہیں ۔

قتل بھی کرتے ہیں اور مقتول کی نعش پر آنسو بھی بہاتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایسے بھی انسان موجود ہوتے ہیں جو ان واقعات پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ متاثرین کی مدد کیلئے آگے آتے ہیں۔ اخبار سیاست بھی ان میں شامل ہے ، ان کی ایک اپیل پر لبیک کہہ کر مدد کو پہونچنے والے ہزاروں افراد کی امداد کو متاثرین تک پہونچاتے ہوئے انہیں راحت فراہم کرنا ایک عظیم کوشش کہلاتی ہے۔ حیدرآباد کے شہریوں نے ہمیشہ مصیبت زدہ کی مدد کی ہے ۔ سیاست کی صحافت میں اللہ تعالیٰ نے اتنی پذیرائی پیدا کی ہے کہ وہ ا پنے لاکھوں قارئین کے ساتھ دست تعاون دراز کرتے ہوئے مظفر نگر سے لیکر ، آسام ، گجرات، ، ماینمار ہر مصیبت زدہ تک پہونچ رہا ہے ۔ ایسے معذور افراد تک بھی یہ دست پہونچ رہا ہے جو خود نوالہ اٹھاکر منہ تک لے جانے کے اہل نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہ ادا پسند آجائے تو مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے والوں کی ہر مصیبت دور کردے گا ۔

یہ بات برحق ہے کہ جب آپ اللہ کی مخلوق سے صرف رضاء الٰہی کے حصول کیلئے محبت کریں گے تو پھر اس محبت کی راہ میں فرقہ بندی ، مذہبی تفریق، دنیاوی درجات وغیرہ حائل نہیں ہوں گے ۔ جب انسان خلق خدا پر مہربان ہوجاتا ہے تو وہ محبت کا بنا ہوا مقدر بن جاتا ہے ۔ سیاست کے حوالے سے آندھراپردیش کے عوام بالخصوص شہر حیدرآباد کے عوام کی اللہ کی مخلوق سے محبت ، خدمت کو بھی معراج انسانیت کا درجہ مل جائے تو بہت بڑی بات ہے ۔ جس شہر کے ماحول میں لوگ اپنے قائدین سے تنگ ہیں، اس ضمن میں صرف حکمراں طبقہ کانگریس کے قائدین ہی شامل نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو کوئی نہ کوئی سیاسی عہدہ رکھتا ہے عوامی ناراضگی کے جذبات کا نشانہ ہے۔ اب صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ مفاد پرستی نے تلنگانہ ریاست کے قیام کی راہوں کو تنگ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ بد نیتی نے تلنگانہ اور اس کے عوام کی زندگیوں کو ترقی سے محروم کردیا جارہا ہے ۔

ان کے باتونی لیڈروں کے احساسات بھی معلوم ہورہے ہیں ۔ انہوں نے بھی اب ریاستی اسمبلی میں تلنگانہ بل کی تائید کردی ہے ۔ شائد یہ سوچ کر کے آگے چل کر وہ بھی تلنگانہ حامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ثبوت پیش کرسکیں۔ اجتماعیت معاشرے کا ہی حصہ ہے جس کے تحت انسان اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اگر کسی مسئلہ پر اجتماعیت پیدا ہوجائے تو یہ چٹکی میں حل ہوگا ۔ تلنگانہ پر کئی لیڈروں کے ساتھ مسلم قائدین نے بھی ا پنی حمایت کا بگل بجایا ہے تو اس اجتماعیت کو فروغ دیئے جانے اور کامل یقین کے ساتھ آگے بڑھیں تو کامیابی یقینی ہے۔ جس طرح طیارہ سے مسافر اپنے کپتان کی ہدایت اور اجتماعیت کے ساتھ پرسکون بیٹھے رہنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب صحیح و سلامت اور کامیابی سے پہونچنے کی امید کرتے ہیں، اس طرح قومی امور میں بھی سیاسی و سماجی اجتماعیت بہت بڑا کام کرجاتی ہے ۔ ہر ایک کو اس کی منزل مل جاتی ہے ۔ میرے طیارہ کی منزل لندن کے ہیتھرو ایرپورٹ اور وہاں سے امریکہ کا ہیوسٹن تھی اس لئے میں بھی طیارہ کے دیگر مسافروں کی طرح آنکھیں بند کر کے اپنی منزل کا انتظار کرتا رہا ۔