سیاسی غصہ۔ جب سرچڑھ کر بولے …

 

تلنگانہ ۔اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سیاسی غصہ جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو زبان سے بے تکی باتیں نکلنے لگتی ہیں ، احسان فراموشی کا مزاج قوی ہوتا ہے تو بزرگوں، ووٹروں اور محبتوں کو حقیر جان کر من مانی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ شہر حیدرآباد کے ایک گوشہ کے سیاسی ماحول اور مزاج سے آپ میں سے اکثر واقف ہوں گے۔ عظیم لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ عام ڈگر سے ذرا ہٹ کر سوچتے ہیں، اپنے گِرد ایک ہالہ بنالیتے ہیں اور ساری عمر اس سے باہر نہیں نکلتے ۔ پرانے شہر کے عظیم سیاستدانوں کی بھی یہی کیفیت تھی لیکن وراثت میں ملنے والی ہر چیز کو حاصل کرنے والوں نے بزرگوں کی بزرگی، تہذیب، تمیز اور آداب کو بالائے طاق رکھ کر نئی قسم کی غیر تہذیبی سیاسی طرز زندگی کو اختیار کرلیا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اطراف ایسے ہی مکتب فکر کے لوگوںکا حلقہ وسیع کرلیا ہے۔ کسی دانا کا قول ہے : ’’ بچہ چھوٹا ہی رہتا ہے جب اس کا باپ فوت ہوجاتا ہے تو وہ بڑا ہوجاتا ہے۔‘‘

پرانے شہر کی سیاست سے نکل کر ذرا ریاست کی حکمراں سیاسی میراث کا جائزہ لیں تو یہاں باپ بیٹے کی شان و شوکت اور سیاسی دھارے کی بات ذرا مختلف ڈھنگ سے ہورہی ہے۔ دیگر سیاستدانوں کو درس دینے والے یہ حکمراں باپ بیٹے از خود اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں میں پیچھے ہیں۔ ریاست میں مختلف ترقیاتی کاموں پر کروڑہا روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کرنے والے سیاسی خاندان کے دو سپوتوں کے تعلق سے یہ رپورٹ سامنے آئی یہ کہ انہوں نے اپنے حلقہ جات اسمبلی میں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈس خرچ نہیں کئے ہیں۔ اپنی پارٹی کے دیگر ارکان اسمبلی کی طرح ان دونوں نے ترقیاتی فنڈس کو استعمال نہیں کیا ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ حکمراں قائد نے پنے حلقہ میں حکومت کی جانب سے دی گئی رقم کا نصف حصہ بھی خرچ نہیں کیا ہے جبکہ ان کے سپوت نے تو صرف 25فیصد رقم ہی خرچ کی ہے۔ یہ ہوتی ہے احسان فراموشی، اپنے ہی رائے دہندوں کو ترقیات سے محروم کرنے والے قائدین کو سیاسی برتری دی جاتی ہے۔ پرانے شہر کے عوام بھی اپنے قائدین کی بے رُخی کے باوجود ان کا مستقبل اپنے ووٹوں سے سنوارتے آرہے ہیں اور خود کا یا خود کے بچوں کا مستقبل پرانے شہر کی تاریک گرد آلود، ڈرینج سے اُبلتی نالیوں، بدبودار فضاء کی نذر کرتے آرہے ہیں۔

اس وقت ریاست میں حکمراں اور اس کے حامی یا تائیدی پارٹیوں کے قائدین کی جانب سے ترقیاتی فنڈس خرچ کرنے کا ریکارڈ افسوسناک ہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی نے اپنا ترقیاتی فنڈ صد فیصد خرچ کیا ہے۔ ان میں کانگریس کے رکن اسمبلی و پارٹی لیڈر کے جانا ریڈی، بی جے پی لیڈر جی کشن ریڈی نے 75 فیصد فنڈس خرچ کیا ہے۔ 119 ارکان اسمبلی کے منجملہ صرف 15 نے 75 فیصد سے زائد فنڈ خرچ کیا ہے جبکہ 6 ارکان اسمبلی نے اب تک صرف 25 فیصد فنڈ خرچ کیا۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راو کو یہ شکایت ہے کہ بیوریو کریسی کی وجہ سے کاموں میں تاخیر ہورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کے نیک ارادے ہوتے ہیں مگر یہ بیورو کریسی ہی ہے جو ان کے نیک ارادوں کو انجام دینے میں کوتاہی کرتی ہے۔ اگر کوئی رکن اسمبلی یا ریاستی وزیر کسی بھی پراجکٹ سے متعلق کام کو تیزی سے نمٹانے کا حکم دے دیتا ہے تو بیورو کریٹس اسے لیت ولعل میں ڈال دیتے ہیں۔ کے ٹی راما راؤ کی یہ شکایت بھی غور طلب ہے کہ سیول سرونٹس سیاستدانوں کو مہمان کی طرح کہتے ہیں۔ سیول سرونٹس کا ماننا ہے کہ وہ اپنے ریٹائرمنٹ تک کرسی پر رہتے ہیں جبکہ سیاستدان صرف پانچ سال کیلئے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ کے ٹی راماراؤ اپنے کاموں کے ذریعہ عوام کی ستائش ملنے کے آرزومند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست میں ان کی حکومت ایسے کام انجام دے جس سے عوام حکومت کی واہ واہ کریں، لیکن بعض کام فوری نہیں ہوتے ۔وزراء کی جانب سے ہدایات جاری کئے جانے کے باوجود ان کاموں کو زیر التواء رکھا جاتا ہے۔ مختلف محکموں کے بیوروکریٹس کا خیال ہے کہ لیڈران صرف پانچ سال کے عارضی چہرے ہوتے ہیں جو واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن اصل مسئلہ سیاستدانوں کے طاقتور ہونے اور ایک بہتر اڈمنسٹریٹر ثابت کرنے کا ہے۔

کے ٹی آر یا کے سی آر دونوں میں ابتدائی طور پر بہتر اڈمنسٹریٹر ہونے کی خوبیاں دکھائی دیتی تھیں اب یہ دونوں اپنی خوبیوں سے زیادہ مرکز کے اشاروں پر عمل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی ٹھپ اور فنڈس کا استعمال مفقود ہوتا جارہا ہے۔ کے ٹی آر اگرچیکہ ریاست کے قائم مقام چیف منسٹر ہیں، اس ڈی فیکٹو سی ایم نے خود کو سرکاری کاموں میں مصروف رکھا ہے کیوکہ ان کے والد تو اپنے سرکاری کیمپ آفس یا فارم ہاؤز تک ہی محدود ہیں۔ اس لئے کے ٹی آر کو مختلف پروگراموں میں مصروف دیکھا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کے ٹی آرمختلف محکموں کے بڑے جائزہ اجلاسوں میں بھی شرکت کررہے ہیں جبکہ ان اجلاسوں کی صدارت کے سی آر کو کرنی ہوتی ہے۔بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ چیف منسٹر صاحب اجلاس میں تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلے جاتے ہیں اور اپنے بیٹے کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ماباقی اجلاس کا جائزہ لے لیں۔ کے سی آر اپنے ایک ہفتہ طویل دورہ دہلی کے بعد ریاست واپس ہوئے ہیں مگر ان کی موجودگی بھی غیر حاضری کے مترادف ہے کیونکہ سرکاری کاموں پر ان کی توجہ نہیں ہے۔ میاں پور اراضی اسکام کے بعد بھی کے سی آر کو زیادہ نمایاں نہیں دیکھا جارہا ہے کے ٹی آر ہی تمام اُمور سے نمٹ رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے دہلی میں بھی ایک ہفتہ قیام کے دوران بھی کے ٹی آر نے قائم مقام سی ایم کا رول ادا کیا تھا۔ ’ ایک دن کا چیف منسٹر ‘ بن کر انیل کپور نے تمام ریکارڈ کام انجام دیئے تھے، کے ٹی آر نے اپنے والد کے ایک ہفتہ دورہ دہلی کے موقع پر ’ ایک ہفتہ کے چیف منسٹر‘ کا رول ادا کیا اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔

آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو بھی اپنے بیٹے لوکیش کو زائد ذمہ داریاں دے کر تلنگانہ کی سیاست میں خود کو سرگرم رکھنے یا زیادہ وقت دینے پر غور کررہے ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کو مضبوط کرنے کی وجہ اس ریاست خاص کر شہر حیدرآباد کی کشش ہے۔ ان سیاستدانوں نے حیدرآباد کو اپنا مسکن بنالیا ہے اور جو حیدرآباد کے مکین سیاستدان ہیں وہ اپنی سیاسی میراث کی دھجیاں اُڑارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے جیسے کو تیسا ہی ہونا پڑے گا، ورنہ نیک لوگوں کی باتیں سن کر نیک ہونے یا نیک بنے رہنے کے بجائے یہ لوگ بدتمیزی کی حدیں پار کرادھ مردہ کردیتے ہیں ۔ یہ بات تو مشہور ہے کہ مسجد میں وعظ سن کر لوگ سدھر جاتے ہیں مگر اتنا سدھر جانا بھی ٹھیک نہیں ہوتا جس سے اس کی نیک حیثیت ہی ختم کرنے کے دہانے پر آجائے۔ مسجد میں مولوی صاحب تلقین کررہے تھے کہ لوگو ڈنک نہ مارو، کاٹو نہیں، مسجد میں ایک سانپ بھی موجود تھا، اس نے سچے دل سے کاٹنے سے توبہ کرلی، کچھ دنوں بعد مولوی صاحب کا جنگل سے گذر ہوا، وہاں انھوں نے دیکھاکہ ایک چمکدار رسی سرِ راہ پڑی ہے، قریب سے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ رسی نہیں سانپ ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا ارے یہ حال تیرا کیسے ہوا ؟ سانپ بولا : ’’ میں نے آپ کا وعظ سنا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ کاٹنا چھوڑدو، سو میں نے چھوڑدیا، لوگ مجھے رسی سمجھتے ہیں۔بچے پتھر مارتے ہیں، فٹبال کھیلتے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب بولے ارے میں نے تجھے کاٹنے سے منع کیا تھا، یہ نہیں کہا کہ پھٹکارنا ہی چھوڑ دے۔
kbaig92@gmail.com