سیاسی عروج کی دوڑ میں آگے نکلنے والے قائدین

تلنگانہ / اے پی ڈائری    خیراللہ بیگ
سیاسی عروج کی دوڑ میں شامل تلنگانہ قائدین میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جب آگے نکل گئے تو ان کے مخالفین نے ان کے زوال کی آرزو کے ساتھ اپنے دن رات گزارنا شروع کیا ہے۔ ان مخالفین کی نظر ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخاب پر ٹکی ہوئی ہے۔ اگر یہاں سے ٹی آر ایس کو کامیابی ملتی ہے تو پھر اپوزیشن کی صفوں میں ماتم ہوگا اور ناکامی کا منہ دیکھا جائے تو اپوزیشن کا لائحہ عمل ہی مختلف ہوگا ۔ سیاسی میدان میں ایک بات اہم ہے کہ زوال جس کا نصیب بن جاتا ہے تو کمال اسے دوبارہ نصیب نہیں ہوتا۔ حصول تلنگانہ کی جدوجہد کیلئے کے چندر شیکھر راؤ سے پہلے بھی کئی قائدین نے اپنے دن رات ایک کردیئے تھے لیکن ان کے حصہ میں زوال ہی آیا ۔ تلنگانہ کیلئے جن لوگوں نے تمنا کی تھی ان کے لئے چیف منسٹر نے کئی اسکیمات تیار کی ہیں مگر عمل آوری الگ مسئلہ ہے۔ خطہ  غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کیلئے 2 بیڈرومس کے فلیٹس کی تیاری میں اولین مظاہرہ کرتے ہوئے بعض خاندانوں میں  ایسے فلیٹس بھی تقسیم کئے گئے ہیں۔ حال ہی میں سکندراباد کے علاقہ نیو بھوئی گو ڑہ میں غریبوں میں  377 فلیٹس تقسیم کئے گئے ۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست کے 119 اسمبلی حلقوں میں فی حلقہ 400 مکانات تعمیر کرے گی ۔ غریب عوام کی بہبود اور ترقی کیلئے ریاستی حکومت کی اس کوشش کو ابتداء  قرار دیتے ہوئے چیف منسٹر نے عوام کو مزید تیقنات سے نوازا ہے۔ سکندرآباد کے فلیٹس میں 276 ایس سی ، 31 ایس ٹی ، 79 بی سیز اور 10 اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو حصہ دیا گیا ہے ۔ اس عمارت کی لاگت 37 کروڑ روپئے ہے۔ اس طرح کی امکنہ اسکیم سے اگر ریاست کے غریب عوام کو سر چھپانے میں مدد ملے گی تو اس کا عوام پر مثبت اثر پڑے گا اور ٹی آر ایس کی حکومت کو زوال کا منہ دیکھنا نہیں پڑے گا ۔

اس سال تمام 119 اسمبلی حلقوں میں 60,000 مکانات تعمیر کرنے کا عزم تو پختہ ہے اور اس کے لئے 4000 کر وڑ روپئے خرچ کرنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے لیکن یہ تب ہی یقین ہوگا جب ریاست کے ہر اسمبلی حلقہ میں غریبوں کو مکان مل جائے گا ۔ اپنے انتخابی وعدے پورا کرنے کا ادعا کرنے والے چیف منسٹر کو مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات دینے کے وعدہ کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے تو یہ وعدہ صرف تصوراتی بن کر رہ جاتا ہے ۔ ریاست کے مسلم قائدین اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں انتخابی مہم میں حصہ لے کر واپس ہوئے اور دھنیا پی کر ایسا سوگئے ہیں کہ جیسے تلنگانہ کی تشکیل سے پہلے سوئے ہوئے تھے۔ انہیں مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات کے بارے میں دلچسپی نہیں ہے اور جب تحفظات دیئے جانے کا داخلی عمل (غیر متوقع طور پر) شروع ہوگا تو اچانک نیند سے بیدار ہوکر میدان میں آئیں گے اور شور کرنے لگیں گے کہ یہ ہم نے کیا ہے۔ تلنگانہ کے عوام میں جب تک جذبات کا بخار برقرار رہے گا وہ اپنے لیڈروں کی ہر بات پر یقین کرتے رہیں گے۔ کے سی آر پر بھی عوام کو اتنا زیادہ بھروسہ ہے کہ وہ ان کی ہر غلطی کو نظرانداز اور ان کے ہر عمل کو یقین کی حد تک تسلیم کرلیتے ہیں۔ اپنی مقبولیت کا فائدہ انہوں نے یوں اٹھانا شروع کیا ہے کہ وہ اب ہر جگہ اپنے فرزند کے ٹی آر کو جلوہ افروز کروا رہے ہیں تاکہ مستقبل کا لیڈر بن کر ابھریں۔ ان کی قیادت کو چیلنج کرنے والوں نے ورنگل ضمنی انتخابات کے نتائج تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے ساتھ مخالفین کو یہ خوش فہمی بھی ہورہی ہے کہ بہار میں جس طرح نریندر مودی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، ورنگل میں ٹی آر ایس کا بھی ایسا ہی حشر ہوگا، مگر حقیقت جاننے والوں کا کہنا ہے کہ کے سی آر اپنے علاقہ کے ہوشیار ترین لیڈر ہیں، وہ مودی کی طرح بہار میں انتخابی مہم نہیں چلائیں گے اور نہ ہی اپنے چیف منسٹر کے عہدہ کی اہمیت کو گھٹائیں گے ۔ مودی نے بہار میں ایسی انتخابی مہم چلائی اور بھول گئے کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ عوام نے وزیراعظم کی شکل میں ایک سیاسی مہم جو ہ دیکھ کر مسترد کردیا ، مگر ورنگل میں ایسا نہیں ہوگا ۔ کے سی آر بحیثیت چیف منسٹر چند ہی جلسوں سے خطاب کریں گے ، باقی ذمہ داری اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ اور پارٹی کے دیگر لیڈروں کے حوالے کرچکے ہیں۔ 21 نومبر کو اس ضمنی انتخاب کیلئے حکمراں ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی نے مہم میں حصہ لیا۔

بتایا جارہا ہے کہ چیف منسٹر کے جلسوں میں عوام کی تعداد کم ہونے سے کے سی آر نے باقی جلسوں کو مخاطب نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اپنے فرزند کو زائد ذمہ داری دینے کا مطلب یہی ہے کہ اہم سرکاری اور خانگی تقاریب سے غیر حاضر رہ کر بعض ناکامیوں سے اپنا منہ چھپایا جاسکے۔ ہر جگہ کے ٹی آر ہی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔اس دوڑ دھوپ کے باوجود کے سی آر اور کے ٹی آر کی دشمنی میں ٹی آر ایس کی مخالفت کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ورنگل میں اب کے سی آر عوام کے اندر تلنگانہ کا جذبہ جگانے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچیکہ انہوں نے ایک جلسہ عام میں 45 منٹ تک تقریر کی اور اپنی تقریر کا محور عوام کو تلنگانہ جذبات سے سرشار کرنا تھا لیکن عوام نے تلنگانہ جذبہ کا کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا جیسا کہ 2014 ء میں انتخابی جلسوں سے ، تلنگانہ تحریک کے جلسوں کے دوران عوام کے اندر جوش و خروش پیدا کرنے میں وہ کامیاب ہوتے تھے ۔ اس مرتبہ ورنگل میں ایسا دکھائی نہیں دیا ۔ کے سی آر اپنے ڈائیلاگ کیلئے مشہور ہیں، ان کا لب و لہجہ اور تقریر کا انداز عوام کو پسند ہے مگر اس مرتبہ ان کی تقریر کے دوران ڈائیلاگ ڈیلیوری کا اثر عوام پر ہوتا دکھائی نہیں دیا۔  اس لئے ان کا جلسہ مایوس کن طور پر اختتام پذیر ہوا ، کے سی آر مجبور ہیں کہ تلنگانہ میں اب بھی غیر حقیقت پسندانہ خوابوں میں رہنے والے عوام ہیں اس لئے انہیں آنکھ مچ کر اپنا سیاسی سودا کرلینے میں کامیاب ہوجائیں۔ کے سی آر نے مسلمانوں کو بھی تحفظات کا خواب دکھایا تھا، اب ان کے ایسے مصنوعی وعدوں کے پیچھے دوڑنے کا فائدہ کب ہوگا؟ اس معرکہ میں سرخروئی کی امید پیدا کرنے سے بھی حالات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ تحفظات کے حصول کیلئے مسلمانوں کو ہی اپنی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرنا اور اپنے اجتماعی شعور کا بھرپور ثبوت دینا ہوگا ۔ سب سے پہلے ارباب اختیار کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ مسلمان اب حصول تحفظات تک خاموش نہیں رہ سکتے۔ تحفظات کے حق میں حکومت کی معذوری کا یوں بہانہ بنایا جارہا ہے کہ بی جے پی ان تحفظات کے خلاف ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر یہ یقین دلاتے آرہے ہیں کہ ان کی حکومت مسلم تحفظات کے وعدہ پر قائم ہے لیکن مرکز کی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت مسلم دشمن پالیسیاں اختیار کر رہی ہے ۔ سدھیر کمیشن نے حال ہی میں حیدرآباد میں اجلاس منعقد کر کے ملک کے ماہرین سے تجاویز حاصل کیں تلنگانہ مسلمانوں کی معاشی تعلیمی اور سماجی پسماندگی کے تعلق سے سفارشات پیش کرنے کی خواہش کی۔ اب سدھیر کمیشن پر ہی سارا دارومدار منحصر ہے جس کے بعد ہی حکومت بی سی کمیشن  بنائے گی اور تحفظات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایڈوکیٹ جنرل سے مشاورت کے بعد تلنگانہ اسمبلی میں بل پیش کر کے ہی بی سی کمیشن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ وزیر آبپاشی ہریش راؤ نے بھی اپنی حکومت کے وعدہ کے تعلق سے یقین دلایا ہے کہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو اب ہرگز پسماندہ رہنے نہیں