سیاسی طرفداری کی خراب مثال

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
یہ بھی ایک جمہوریت کی دین ہے کہ ریاست کا چیف منسٹر کیمپ آفس یا فارم ہاوزتک محدود رہ کر پسِ پردہ اپنے لہجہ اور حکمرانی سے پہچانا جارہا ہے۔ اپوزیشن کو اس ریاست تلنگانہ کی ترقیات اور پراجکٹس کے بارے میں حکومت کے وعدوں اور دعوؤں میں اسکامس ہی اسکامس نظر آرہاہے مگر وہ کھل کر حکومت کی خرابیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اپوزیشن خود اپنے احباب کے دھوکے کا شکار ہے تو دشمنوں کے ڈر نے اسے گھبراہٹ کا شکار بنادیا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کانگریس، تلگودیشم سے نکل کر کئی قائدین نے ٹی آر ایس میں پناہ لی ہے اور ان میں سے کئی ایک قائدین کو ریاست کے بعض اہم عہدے بھی دیئے گئے ہیں۔ اب یہ لوگ ٹی آر ایس میں رہ کر کانگریس جیسی قدیم پارٹی کے قائدین سے کہہ رہے ہیں کہ ریاست تلنگانہ سے بستر لپیٹ لیں، گویا بچے ہمارے سامنے جو کل بڑے ہوئے منہ کھول رہے ہیں۔ اس دور کے سیاسی انحطاط کا یہ بھی ایک کمال ہے کہ داغدار لوگ اب اقتدار کے نور نظر بنے ہوئے ہیں۔ صدارتی انتخاب نے بھی ریاست تلنگانہ کی سیاست اور سیاسی طاقتوں کی اصلیت کو آشکار کردیا ہے۔

این ڈی اے کے صدارتی امیدوار رامناتھ کووند کی تائید میں آئے ہوئے ریاست کے قائدین آہستہ آہستہ حکمراں بی جے پی کے قریب ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش رکھنے کے ہنر نے کئی قائدین کو رفتہ رفتہ معاملت کی سمت جانے کی راہ دکھائی ہے مگر وقت آنے پر ان کے داؤ پیچ سب ضائع ہوجائیں گے۔ دیکھنا ہے کہ وقت کا اندھا مؤرخ کیا لکھے گا ۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی طرفداری کی ایک خراب مثال پیدا ہوئی ہے۔ صدارتی امیدوار رامناتھ کووند اگر اتفاق سے صدر منتخب ہوتے ہیں تو چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ ان سے بے انتہا محبت کریں گے اور ان کی یہ غلطی انہیں ان کے سیاسی مستقبل کے سمت کے تعین کا مؤجب بنے گی۔ دراصل کے سی آر نے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔ وہ خود نریندر مودی کے ساتھ اڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کی یہ کوشش ٹھیک تلنگانہ کے قیام سے قبل صدر کانگریس سونیا گاندھی کے ساتھ بھی دیکھی گئی تھی۔ کے سی آر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تلنگانہ میں نریندر مودی کے غیر معلنہ ترجمان بن جائیں گے۔ یعنی میں جو کہوں ہاں سو ہاں، میں جو نہ کہوں نا سو ناں۔ اس وجہ سے کے سی آر نے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کے نام کے اعلان سے قبل ہی تائید کردی تھی، کووند کا نام بعد ازاں ظاہر کیا گیا۔
سال 2019 کے عام انتخابات سے قبل تلنگانہ میں اگر کانگریس ایک اپوزیشن اتحاد بناتی ہے تو ایسے میں ٹی آر ایس کو بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا یا پھر مودی سے اپنی دوستی کا واسطہ دے کر بی جے پی کو ٹی آر ایس کے لئے راست چیلنج بننے نہ دینے کی شرط رکھی جائے گی۔ لیکن بی جے پی کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ سارے ملک پر ناقابل چیلنج پارٹی بن کر ابھرنا ہے، ہر ریاست میں اس کی حکمرانی ہو یا اس کے نظریات کی حامی پارٹی کی حکومت ہو اسے ہر محاذ پر کامیاب ہونے کے لئے وہ نظریات کی حامی سیاسی جماعتوں اور قائدین کو قریب کررہی ہے، اور کے چندر شیکھر راؤ جیسی چالاک شخصیت کو بی جے پی کے اس منصوبہ کا علم نہ ہونا ایسا ہو ہی نہیں سکتا، لیکن وہ انجان بن کر عوام کے سامنے خود کو سیکولرلیڈر ثابت کررہے ہیں۔ درپردہ طور پر یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس کے اہم قائدین کو بی جے پی میں شامل کرنے کی ترغیب دی جائے۔ لیکن کانگریس کے سینئر قائدین کے لئے مشکل ہے کہ وہ بی جے پی کے کلچر کو اختیار کرلیں۔ مگر اس وقت سیاسی ماحول کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیونکہ کل کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ پرانے شہر کی جماعت اپنے سیاسی مستقبل کو مزید روشن بنائے رکھنے کے لئے بی جے پی سے بھی درپردہ ہاتھ ملا سکتی ہے ، کیونکہ صدارتی امیدوار کے لئے اس نے اپنے موقف کو واضح نہیں کیا ہے۔

یہ تو عام بات ہے کہ ہر قوم میں مختلف منحرف اعتقادوں کے سانپ ہوتے ہیں جو قوم کی ہر تباہی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ قوم کے چبھتے زخموں کو نشتر مارنے میں وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے پاس خود سر، مغرور اور زہر افشانی کرنے والے لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے، خود حکمراں پارٹی کو بھی ایسے ہی من مانی کرنے والے بے ادب لیڈروں سے بدنامی کا سامنا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے از خود اپنے ارکان اسمبلی کے رویہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ ریاست کی بیوریو کریسی کے ساتھ بھی وزراء اور ارکان اسمبلی کا رویہ سخت ہوتا ہے ۔ حال ہی میں محبوب آباد کلکٹر کے ساتھ ٹی آر ایس رکن اسمبلی محبوب آباد کے رویہ پر چیف منسٹر نے برہمی ظاہر کی تھی ۔ کلکٹر پریتی مینا کے ساتھ ایم ایل اے شنکر نائیک کا نازیبا سلوک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کانگریس نے ریاست میں خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا مسئلہ اٹھایا۔ خاتون سرکاری عہدیدار ان لیڈروں کے سامنے رس بھری ٹہنی پہ املیاں سمجھی جاتی ہیں۔ سکریٹریٹ میں کام کرنے والی خاتون عہدیداروں کے بارے میں بھی کئی ریمارکس اور تبصرے گشت کرتے رہتے ہیں۔ جب چیف منسٹر ہی سکریٹریٹ سے دور رہیں تو وہاں کے ماحول اور کارکردگی کے بارے میں شکایات عام ہوں گی۔

اس ریاست میں ہر جرم مصلحت کے کواڑوں میں پل رہا ہے اور عوام کی آنکھیں کھلی بھی ہوں تو کیا ہو، کھلے ہونٹ سی لئے گئے ہیں۔ بہت عظیم ہے یہاں کا شہری سیاستدانوں کے دیئے گئے غموں کی آگ میں جلتا ہے مسکراتا ہے۔ شہر کی یا ریاست کی سڑکیں خستہ ہیں پھر بھی چلتا ہے شان سے۔ شجرکاری کی مہم کے ذریعہ ریاست کو سرسبز بنانے کا کام کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ تین سال سے شجرکاری ہورہی ہے، ہریتا ہارم پروگرام کے ذریعہ کروڑہا روپئے خرچ کئے گئے مگر ریاست یا شہر میں کہیں بھی سرسبزی و شادابی نظر نہیں آتی۔ یہ بھی ایک بڑا اسکام ہے جو کل ظاہر ہوجائے تو بھی حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ لیکن جب عوام اپنے صبر کی سرحد پر آکے ٹہر جائیں گے تو انہیں یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ کیا فیصلہ کریں۔ مسلمانوں کو تحفظات کا مسئلہ ہو یا ڈبل بیڈ روم مکانات کی تعمیر، تعلیم کی فراہمی ہو یا کسانوں کو بکریاں دینے، نائی برہمنس کو مالی امداد دینے کے بارے میں حکومت کی اسکیمات سُست روی سے چل رہی ہیں۔

کرسیوں اور عہدوں کی آرزو میں حکومت کے اِرد گِرد منڈلانے والے لوگوں کو چیف منسٹر کے رویہ سے مایوسی ہورہی ہے۔ ریاست میں کوآپریٹیو سوسائٹیز کے انتخابات کو موخر کیا جارہا ہے۔ فبروری 2018 میں ان کوآپریٹیو بینک، ڈسٹرکٹ مارکٹ کمیٹی اور کریڈیٹ سوسائٹیز کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ اس کے لئے جاریہ سال جون سے ہی انتخابی عمل شروع ہونا چاہیئے تھا لیکن اضلاع کی تعداد میں اضافہ کے بعد سے صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ ٹی آر ایس کے کارندوں کی یہ خواہش تھی کہ تلنگانہ میں اضلاع کی تعداد بڑھنے کے بعد عہدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور آمدنی بھی بڑھے گی مگر چیف منسٹر نے ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ عہدے نہ ملنے سے ٹی آر ایس حامی قائدین ناراض ہیں۔ ٹی آر ایس کے یہ مفاد میں نہیں ہے کہ وہ 2019 سے قبل ان انتخابات کو منعقد کرے کیونکہ اس سے 2019 کے عام انتخابات میں سیاسی پارٹیوں پر سخت اثر پڑے گا اور چیف منسٹر کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر ضلع سطح پر کارکنوں کو عہدے دیئے جائیں تو پھر مقامی سطح پر گروپ سیاست کو اُکسانے میں مدد ملے گی اور پارٹی کے اندر گروپ بندیاں شروع ہوں گی۔ لہذا پارٹی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ تمام پارٹی ورکرس کو صرف آس اور اُمید میں ہی رکھا جائے۔ پارٹی ورکر کو آس یا اُمید میں مبتلاء رکھا گیا تو وہ انتخابات میں سخت محنت کرے گا۔ اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک چیرمین کے عہدہ بہت پُرکشش ہوتے ہیں کیونکہ ان بینکوں کے ذریعہ جو مالیاتی اتھل پتھل اور لین دین ہوتی ہے اس کا فائدہ راست وزراء، ارکان اسمبلی اور مقامی لیڈروںکو ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ سنٹرل بینک کا چیرمین کا عہدہ ضلع کے ایک وزیر سے زیادہ اہم ہوتا ہے، اس چیرمین کے عہدہ کے لئے جس طرح کی جدوجہد کی جاتی ہے اس کیلئے کسی پارٹی کا ٹکٹ لینے سے کہیں زیادہ زور لگایا جاتا ہے۔ بہر حال چیف منسٹر نے سیاسی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے مقامی پارٹی لیڈروں کو اُمید کے کھوٹے سے باندھے رکھا ہے۔
kbaig92@gmail.com