سیاسی ساکھ بہتر بنانے کی دوڑ

تلنگانہ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
حکیم لقمان نے تقریباً تمام ہی بیماریوں کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔ کچھ بیماریاں روحانی تھیں اور کچھ جسمانی۔ لیکن حکیم صاحب بھی ’’وہم، شک، بدگمانی، مخصوص ذہنیت اور ’’حسد‘‘ جیسی بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے میں مکمل طور پر ناکام ہی رہے تھے۔ مانا کہ بیویاں اپنے شوہروں کے معاملے میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی قائل نہیں ہوتیں مگر بسا اوقات ان کا یہی رویہ ایک دن انہیں کسی نہ کسی سمجھوتے پر مجبور کر ہی دیتا ہے۔ خاندانوں میں نفسیات کی لڑائی اور بکھرتے حالات، بگڑتے واقعات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنے، سمجھانے والے ڈاکٹر مجید خاں اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ شہر کی معروف ماہر نفسیات شخصیت ڈاکٹر صاحب نے کئی نفسیاتی مریضوں کا اپنے تجربہ اور علم کی بنیاد پر علاج کیا تھا۔ کئی گھروں کو ٹوٹنے، کئی انسانوں کو بکھرنے سے بچایا تھا۔ اب یہ شہر ایک ماہر نفسیات سے محروم ہے۔ روزنامہ سیاست کے قارئین بھی ڈاکٹر صاحب کے تجربات و مشاہدات کا مطالعہ کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔

شہر حیدرآباد میں گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران کئی بری اور اچھی خبریں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک مسلم نوجوان کی دوستوں کی زدوکوب سے ہونے والی موت کا واقعہ بھی اہم ہے۔ نوجوانوں میں فری اسٹائیل کی لڑائی اور ویڈیو گیمس یا ٹی وی چیانلوں پر ہونے والے مقابلوں کو دیکھ کر جس طرح کی نفسیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا بھیانک انجام اگر نوجوان کی موت کی شکل میں رونما ہوتا ہے تو یہ بری بات ہے۔ مسلم معاشرہ میں جسمانی طاقت اور دولت کا استعمال کچھ اس معیوب طریقہ سے ہورہا ہے کہ اس سے معاشرہ کی بگڑتی تصویر واضح ہورہی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے صاحب علم ہونے کی ہدایت دی ہے۔ اس نعمت کے باوجود مسلمانوں میں صاحب علم افراد کے درمیان ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو یہ بڑی بدبختی کی بات کہلاتی ہے۔ اس طرح کا معاشرتی بگاڑ اچھی علامت نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ کے اس بگڑتی صورت میں خیر کے پہلو نکلنے کی امید رکھتے ہوئے دعا کی ضرورت ہے۔ ریاستی سطح پر ہونے والی خاص تبدیلیوں میں دونوں ریاستوں کی حکومتوں نے تلنگانہ اور آندھراپردیش آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو ان کے مطالبات تسلیم کرکے ختم کرادی۔ اس ہڑتال سے دونوں ریاستوں کے عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ چندرا بابو نائیڈو نے آر ٹی سی ملازمین کے مطالبات کو قبول کرکے 43 فیصد فٹمنٹ کا اضافہ کیا تو چیف منسٹر تلنگانہ چندرشیکھر راؤ نے آندھرا حکومت پر برتری کیلئے ایک قدم یعنی ایک فیصد بڑھا کر 44 فیصد فٹمنٹ کا اعلان کیا۔ اس اضافہ کے بعد کی ادائیگیوں کا مرحلہ وار طور پر پورا کرلیا جائے گا۔ تلنگانہ ریاست کیلئے اس ہفتہ سب سے بڑی راحت آر ٹی سی ہڑتال سے ملی ہے اور دوسری بڑی خوشی امریکہ کے گوگل ادارہ کی جانب سے حیدرآباد میں برانچ قائم کرنے کا اعلان ہے۔ وزیرانفارمیشن ٹکنالوجی کی حیثیت سے کے ٹی راما راؤ نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ریاست میں سرمایہ کاری کے مواقعوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

حیدآباد میں گوگل کا قیام سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ساری دنیا کے ادارے اس گوگل کمپنی کے توسط سے حیدرآباد شہر کا رخ کریں گے۔ 1000 کروڑ کی سرمایہ کاری کے ساتھ گوگل نے 13000 ملازمتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب یہ آئی ٹی صنعت سال 2019ء تک مکمل ہوجائے گی۔ شہر میں سرمایہ کاری کا فیصد بھی بڑھے گا۔ کے ٹی راما راؤ امریکہ کے سرکاری دورہ پر ہیں۔ انہوں نے گوگل کے ساتھ معاہدہ کرکے حیدرآباد میں آئی ٹی صنعت کو ایک نئی طاقت دینے کی سمت مضبوط قدم اٹھایا ہے۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد یہ پہلا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ کے ٹی راماراؤ کے برعکس آندھراپردیش کی حکومت کی جانب سے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کے فرزند لوکیش نے بھی امریکہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے اگرچیکہ امریکہ میں اعلیٰ قیادت جیسے صدر بارک اوباما اور دیگر گورنروں سے ملاقات کی مگر وہ اپنی ریاست کیلئے کسی بڑی کمپنی کے ساتھ سرمایہ کاری کا معاہدہ کرنے میں ناکام ہوئے۔ کے ٹی راما راؤ کے برعکس لوکیش کا یہ دورہ غیر سرکاری تھا کیونکہ وہ حکومت کے کوئی نمائندہ ہے نہ ہی وہ کابینہ میں شامل ہیں اس لئے ان کے اس دورہ امریکہ کو خانگی یا پارٹی لیڈر کے سفیر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاسکتا۔ لوکیش کے دورہ پر تنقید کرنے والوں نے یہی سوال اٹھایا ہے کہ آخر لوکیش نے امریکہ کا دورہ آندھراپردیش حکومت میں کس حیثیت سے کیا ہے۔ کے ٹی راما راؤ کے دورہ کی قانونی حیثیت ہے لوکیش کے دورہ کی اہمیت صرف خانگی نوعیت کی ہے۔ تاہم لوکیش نے بھی اپنے دورہ کو کامیاب بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ ان کے والد چندرا بابو نائیڈو کے نیک نامی سے استفادہ کرتے ہوئے وہ اپنی شناخت بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ علاقائی پارٹیوں کے ان دو نوجوانوں کی امریکی یاترا کے درمیان قومی پارٹی کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے تلنگانہ کی یاترا کرکے اپنی پارٹی کی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ کسانوں سے ہمدردی کیلئے ان کی پدیاترا پارٹی کے حق میں کوئی خاص ہمدردی پیدا نہیں کرسکے گی۔ ضلع عادل آباد میں 15 کیلو میٹر طویل پدیاترا کرتے ہوئے راہول گاندھی نے مرکز کی مودی حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے ریاستی حکومتوں کے خلاف کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ 2 جون 2014ء کو تقسیم آندھراپردیش کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ تلنگانہ ہے۔ علحدہ تلنگانہ کا سہرا اپنے سر لینے کی ہزارہا کوشش کے باوجود کانگریس کو 2014ء کے عام انتخابات میں ناکامی ہوئی تھی۔ کانگریس قائدین کو اپنے اس نوجوان لیڈر کے دورہ سے کچھ امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔

اس نہج پر تلگودیشم بھی ٹی آر ایس حکومت کے خلاف مہم چلا کر تلنگانہ میں کسانوں کی خودکشی کے مسئلہ کو اچھال رہی ہے۔ تلگودیشم کے سینئر لیڈر اور پارٹی پولیٹ بیورو رکن آر چندرشیکھر ریڈی نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ ٹی آر ایس کے دور میں تلنگانہ میں 1000 کسانوں نے خودکشی کرلی ہے اور حکومت نے ان کسانوں کے پسماندگان کیلئے کچھ نہیں کیا۔ تلگودیشم اور کانگریس کی طرح بی جے پی کو بھی اپنی سیاسی احساس محرومی کے ساتھ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ سکریٹریٹ میں بی جے پی لیڈروں کا دھرنا سیاسی روزگاری کا ایک حصہ معلوم ہوا ہے۔ بی جے پی کو یہ شکایت ہیکہ ٹی آر ایس حکومت نے سوچھ تلنگانہ سوچھ حیدرآباد کا پروگرام دراصل مرکز کے سوچھ بھارت مشن کو ہائی جیک کرکے بنایا ہے اور سوچھ حیدرآباد پروگرام کیلئے انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔ بی جے پی کا ادعا ہیکہ شہر حیدرآباد میں حکمراں پارٹی سے زیادہ اس کے ارکان اسمبلی ہیں تو اس کا حق بنتا ہیکہ اسے حکومت کے سوچھ حیدرآباد پروگرام میں مدعو کیا جائے۔ دیگر پارٹیوں کی بھی یہی شکایت تھی کہ حکومت نے شہر میں سوچھ بھارت مہم چلا کر انہیں نظرانداز کردیا۔ حکومت اپنے کسی بھی پروگرام کو کسی بھی حلقہ میں مقامی رکن اسمبلی کو نظرانداز کرکے منعقد کرے گی تو شکایت تو پیدا ہوگی۔ اس طرح مقامی افراد کی مرضی کے بغیر حکومت کا پروگرام کامیاب نہیں ہوسکے گا لیکن ٹی آر ایس حکومت نے اس پروگرام کو بہرحال انجام دینے کی ٹھان لی ہے۔ مقامی اور ریاستی سطح پر حکمراں پارٹی کے خلاف اپوزیشن کی ناراضگیوں کا غبارہ کب پھٹ پڑے گا یہ وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔
Kbaig92@gmail.com